252

اختلافی نوٹ…………….تحریر:تقدیرہ خان

بابر اعوان ایڈووکیٹ کے ٹیلی ویژن شو کا نام اختلافی نوٹ ہے ، مگر ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ، ان کا اختلافی نوٹ بھی کچھ عجیب ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ آخر انھیں کس سے اختلاف ہے ۔ وہ اکثر حکومتی کوتاہیوں پر طنز کے تیر برساتے ہیں ، جو کہ ان کے پارٹی منشور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وہ پیپلز پارٹی زرداری گروپ کے اہم رکن اور شریک چئیر مین کے خاص آدمی تصور کیے جاتے ہیں ۔ جس طرح جناب زرداری اور بابر اعوان ایک دوسرے کے لیے اہم ہیں اُسی طرح جناب میاں نواز شریف کے لیے زرداری ، الطاف بھائی ، مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نہ صرف اہم ہیں بلکہ ان کی مہم کا حصہ ہیں ۔ جناب بابر اعوان کا دعوی ہے کہ ان کے جد اعلی راہ سلوک کے مسافر تھے انھوں نے سکھا شاہی کے خلاف سید احمد شہید کا ساتھ دیا اور دوران جہاد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ۔
ایک ٹیلی ویژن شو میں دکھایا گیا تھا کہ آپ اپنے شہید جد اعلی کی قبر پر چادر چڑھانے کے بعد فاتحہ خوانی کر رہے ہیں ۔ جناب بابر اعوان دلچسپ گفتگو کر تے ہیں اور اختلاف بھی اخلاقی حدود تک محدود رکھتے ہیں لگتا ہے کہ آپ نے پروگرام کا نام جناب زرداری سے وقتی اختلاف کی بناء پر رکھا حالانکہ زرداری اور میاں خاندان میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں ، اگر اختلاف ہوتا تو قوم کب کی میاں خاندان کی شاہانہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کر چکی ہوتی ۔
کچھ عرصہ قبل چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے بحر سیاست مولانا فضل الرحمن کے آستانہ عالیہ پر حاضری دی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ تایا فضل الرحمن چچا الطاف، اور چچا نواز شریف کا بے حد احترام کرتے ہیں ۔ چئیر مین بلاول نے یہ بیان دیکر جناب بابر اعوان کے اختلافی نوٹ کو اختلاجی بلکہ اختلاطی نوٹ میں بدل دیا ہے ۔ جناب بابر اعوان نے اپنی کتا ب وکالت نامہ صفحہ اول پر بے نظیر بھٹو مرحومہ کی یہ دعا نقل کی ہے اللہ کرے بلاول بھی ڈاکٹر بابر اعوان کی طرح تابعدار بیٹا ثابت ہو ۔ بابر اعوان اپنی ماں کا تابعدار اور قابل فخر بیٹا ہے ۔
پتہ نہیں بلاول کو ماں کی اس دعا کا علم ہے بھی یا نہیں ، اگر علم ہوتا تو مولانا فضل الرحمن سے کبھی بھی نہیں ملتے ۔ محترمہ کلثوم سیف اللہ مرحومہ نے اپنی خود نوشت میری تنہا پرواز صفحہ نمبر 163 پر مولانا فضل الرحمن سے ٹاکر ا کے عنوان سے لکھا ہے کہ جب محترمہ وزیرا عظم تھیں تو میں انھیں ملنے ان کے دفتر گئی جہاں پہلے سے مولانا فضل الرحمن موجود تھے ۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ مولانا کا محترمہ کے سامنے بیٹھنے اور گفتگو کا انداز قابل اعتراض تھا۔ جبکہ محترمہ فضل الرحمن کی طرف دیکھے بغیر اپنے کام میں مگن تھیں میں نے مولانا کو پشتومیں سمجھایا تو ان کا جواب بھی تہذیب کے دائرے سے باہر تھا۔ آخر میں لکھتی ہیں کہ میں مولانا فضل الرحمن کی شخصیت اور سیاست کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی کہ کاش وہ اپنے والد مفتی محمود کی طرح درویش منش اور قناعت پسند ہوتے ۔ ایک اور جگہ لکھتی ہیں کہ مولانا کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ گئی کہ محترمہ کو ان کے کسی مشیر نے مشورہ دیا کہ قومی خزانے کی چابیاں مولانا کے حوالے کر دیں ۔
جناب بابر اعوان کی یہ تحریر پڑھیں تو لازم ہے کہ وہ اپنے اختلافی نوٹ میں سیاسی بد اعمالیوں کا بھی ذکر کریں اور بلاول بھٹو زرداری کو اپنی شاگردی میں لے لیں ۔ اور انھیں سیاسی کاروباری لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کریں ۔
بات اختلافی نوٹ سے چلی تھی اور کہنا صرف یہ تھا کہ میرا اختلافی نوٹ جناب بابر اعوان سے مختلف ہے ۔ مجھے ان کی تحریر اور تقریر سے کوئی اختلاف نہیں ، محترمہ اور ان کی والدہ کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں جس طرح محترمہ نے بابر اعوان اور بلاول کے لیے دعا کی ایسے ہی جنرل ضیاء الحق بھی جناب بابر اعوان اور میاں نواز شریف کے لیے دعا گو رہے ۔
میاں صاحب وضع دار آدمی ہیں ، میاں صاحب نے جنرل ضیاء الحق اور محترمہ کی شہادت پر بیان دیا تھا وہ جنرل ضیاء الحق اور محترمہ کے مشن کو ہر حال میں مکمل کریں گے ۔ میاں صاحب کب کس کا مشن مکمل کرتے ہیں یہ ان کی صوابدید پر ہے ۔
میرا اختلافی نوٹ پاک فوج کے ترجمان رسالے ہلال میں چھپنے والے جناب خالد محمود رسول کے مضمون ( Entrepreneurship)کیوں ضروری ہے ؟ سے متعلق ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ چند سال نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد نے لیڈر شپ اور منیجمنٹ کے لیے ایم ۔ فل کی کلاسز شروع کیں تو مجھے بھی استادوں کی لسٹ میں شامل کر لیا ۔ کلاسز شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ پڑھانے کے لیے کوئی مواد ہی دستیاب نہیں کورس کے دوران ہم نے طلباء کو پاکستان کے نامی گرامی کاروباری اداروں اور شخصیات پر تحقیقی پیپر لکھنے کو کہا تو ایسی شخصیات پر مواد کی کمی آڑھے آئی ۔ آٹھ میں سے صرف ایک گروہ نے کسی پاکستان شخصیت پر مقالہ لکھا اور باقی گروہوں نے دنیا بھر کے (Entrepreneurs) پر مقالے لکھے ۔
آپ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ( Entrepreneurship)کو قومی ترجیح دی جائے اور اس کے لیے کاروبار دوست ریگولیشن فریم ورک کا اہتمام کیا جائے ۔
مضمون نگار سے میرا اختلاف یہ ہے کہ انھوں نے طلبا کو ایسا مضمون کیوں دیا جو جناب اسحاق ڈار ، میاں برادران اور احسن اقبال صاحبان جیسے داناؤں کی موجودگی میں کبھی پروان چڑھ ہی نہیں سکتا۔ انھیں اپنے طلباء کو میاں اور زرداری خاندان کی خوشحالی ، چائنا فٹنگ کے طریقوں ، لینڈ مافیا، شوگر مافیا، واٹر مافیا، سمیت ہزاروں مافیاجات اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جانے کے طریقوں پر مقالہ لکھنے کے لیے کہا ہوتا تو ہر گروہ آسانی سے اپنا تحقیقی پیپر مکمل کر لیتا ۔بدعنوانی، لوٹ مار اور دیگر معاشی اور اخلاقی جرائم ہماری قومی سیاست کا لازمی جزو ہیں جن پر وافر مقدار میں نہ صرف مواد بلکہ ہر سیاسی جماعت میں درجنوں تجربہ کار پروفیسرز بھی موجود ہیں ۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں بد عنوانی ، سب سے بڑی ( Entrepreneurship)ہے جسے جامعات کے نصاب کا حصہ بنا دیا جائے تو ساری دنیا کے لوگ اس مضمون میں ڈاکٹریٹ کے لیے آجائیں گے ۔ اُمید ہے کہ ہمارے اس اختلافی نوٹ کے بعد جناب خالد محمود رسول اگلا مضمون بدعنوانی کا فروغ کیوں ضروری ہے ؟ پر لب کشائی ضرور فرمائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں