203

عبداللطیف خود ایک کرپٹ آدمی ہیں۔جو کہ ٹمبر مافیا کے ساتھ ملکر چترال کے سرسبز درختوں کی کھٹائی میں ملوث ہیں۔پیپلزپارٹی کےورکروں کاپریس کانفرنس

چترال(نمائندہ چترال ایکسپریس)پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ایم پی اے چترال سلیم خان کے ترجمان و سابق پی پی پی جنرل سیکرٹری محمد حکیم خان ایڈوکیٹ نے بشیر احمد ، قاضی فیصل ، سابق تحصیل نائب ناظم خوش محمداور صاحب جان کو نسلر کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ۔ کہ سلیم خان کی خدمات کھلی کتاب کی مانند ہیںہفتے کے روز چترال پریس کلب میں پی پی پی کے رہنما سابق جنرل سیکرٹری محمد حکیم ایڈوکیٹ نے  ایم پی اے سلیم خان کا پریس ریلیز پڑھ کر سنایا ۔اُجس میںکہا گیا ہے کہ جمعہ کے روز چترال پریس کلب میں پی ٹی آئی کے ایک ممبر ڈسٹرکٹ کونسل عبداللطیف نے میرے ساتھ مناظرے کے حوالے سے جن باتوں کا تذکرہ کرچکے ہیں وہ سراسرجھوٹ کے پلندے ہیں۔میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں پی ٹی آئی کے ساتھ مناظرے کے لئے تیار ہوں مگرمناظرے میں میرے لیول کا کوئی منسٹر آکر بیٹھے میں اب بھی تیار ہوں کہ پی ٹی آئی کا کوئی وزیر اپنے چار سالہ کارکردگی کو لیکرمناظرے کے لئے کسی ٹی وی چینل پر آئے اور میں بھی اپنی حکومت کے سابقہ کارکردگی کو پیش کرنے کیلئے تیار ہوں۔ عبداللطیف نے مجھ پر الزام لگاکر کہا ہے کہ 50ہزار روپے کے کرایانہ اسٹور کے مالک آج کروڑپتی کیسے بنا۔میں اب بھی کہتا ہوں کہ جائز کاروبار کرنا کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے میرا 20لاکھ مالیت کا کاروبار چترال بازار میں تھا۔اور اب بھی میں پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہوں۔اُ ن کے لیڈر عمران خان کی طرح خیرات اور زکواۃ کے پیسوں سے سیاست نہیں کرتا ہوں۔اُنہوں نے کہا کہ عبداللطیف خود ایک کرپٹ آدمی ہیں۔جو کہ ٹمبر مافیا کے ساتھ ملکر چترال کے سرسبز درختوں کی کھٹائی میں ملوث ہیں اور محکمہ فارسٹ نے سبز درختوں کی کھٹائی کی جرم میں عبداللطیف اینڈ کمپنی کو3کروڑ 50لاکھ کا جرمانہ بھی کیا ہے۔Saleem Khan MPAمگر ابھی تک عبداللطیف نے اپنی حکومت کاسہارا لیکر اس جرمانے کے رقم کو بھی حکومتی خزانے میں جمع نہیں کیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ میرا دامن صاف ہے۔میں چترال میں سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں اگر کوئی کرپشن کرتا یا کوئی نوکری فروخت کرتا تو چترال کے عوام مجھے دوبارہ منتخب نہ کرتے۔الحمد اللہ شکر کہ میں نے اپنے دور حکومت میں چترال کے نوجوانوں کے کیلئے تقریباً تین ہزار نوکریاں پیدا کیں اور چترال کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر چترال پولیس،بارڈر پولیس،محکمہ بہود آبادی،محکمہ تعلیم ،محکمہ صحت اور دوسرے اداروں میں روزگار دیا۔اپنے دور حکومت میں چترال پولیس اور بارڈر فورس کے تعداد کو بڑھا کر ڈبل کیا۔محکمہ بہبودآبادی کے وزیر کی حیثیت سے چترال کے دور دراز علاقوں میں13فلاحی مراکز قائم کیا۔جس کی وجہ سے چترال کے تقریباً70افراد کو روزگار ملا۔چترال کے ملازمین کے مطالبے پر فائر ووڈ الاونس کو700روپے سالانہ سے بڑھا کر8ہزار کردیا۔مزید یہ کہ تمام ملازمین کے غیر پرکشش الاونس (UAA) کو300روپے ماہوار سے بڑھا کر4500روپے کروایا۔اس کے علاوہ ہمارے دور حکومت میں پانج سال کے اندر ملازمین کی تنخواہوں میں140فیصد اضافہ ہوا۔مگر اس حکومت میں سالانہ 10فیصد سے کبھی نہیں بڑھا ہے جو کہ ملازمین کو بخوبی معلوم ہے۔اُنہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں چترال کے غریب لوگوں کی تمام قرضے معاف کروائے جس کی وجہ سے تقریباً دو آرب روپے کے تمام قرضے چترال کے لوگوں کو معاف ہوئے جبکہ اس حکومت میں وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کے بارباراعلانات اور یقین دیہانیوں کے باوجود سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے کوئی قرضے ابھی تک معاف نہیں ہوئے۔میرے دور حکومت میں چترال کے اندر تعلیم کی ترقی کے لئے 2یونیورسٹیوں کے کیمپس کھول دئیے گئے۔پورے ضلع چترال میں8ہائیر سیکنڈری سکولز،22ہائی سکولز،25مڈل سکولز45پرائمری سکولز،ایک گرلز ڈگری کالج دروش،کئی سکولوں کے اضافی کمرے،لیٹرین اور چار دیواری بنائی گئی اس کے علاوہ زنانہ تعلیم کی فروغ کیلئے چھٹی جماعت سے لیکربارویں جماعت تک 300روپے ماہوار وضیفہ مقرر کروایا۔کتابیں مفت فراہم کیے۔جوکہ ابھی تک چلے رہے ہیں۔چترال میں صحت کے لئے ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کواپگریڈ کرکے کٹیگری بی ہسپتال بنوایا۔ڈی ایچ کیو کے اندر نیا ایکسرا مشین ،ڈیلاسیس مشین،ایمبولنس ۔بونی اور گرم چشمہ ہسپتال کے لئے نیاایکسرا مشین،ارندو اور دراسن آر ایچ سی کیلئے تمام سامان اور ایمبولنس،چترال کے مختلف مقامات پر9ڈسپنریاں قائم کیے۔جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بونی اور دروش ہسپتال کی اپگریڈیشن کو ہم نے آے ڈی پی میں شامل کروایا۔مگر دوسال گزرنے کے باجود زمین کی خریداری کیلئے رقم نہیں ملے،معلوم نہیں یہ ہسپتال اس دور حکومت میں بھی بن جائیگی یا نہیں۔اُنہوں نے کہا کہ ہمارے سابقہ دور حکومت میں چترال کے اندر کم وبیش 8ارب روپے کے منصوبے مکمل ہوئے۔جس میں چترال بائی پاس روڈ78کروڑ روپے،گولین گول سےچترال ٹاون کیلئے واٹر سپلائی اسکیم32کروڑ روپے۔دروش ٹاون ،ارندو،ایون،بونی،تورکہو اور دوسرے علاقوں کیلئے تقریباً50کروڑ کے واٹر سپلائی اسکیمیں مکمل ہوئیں۔چترال گرم چشمہ روڈکی بلیک ٹاپنگ پر تقریباً 5کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت میں روڈ سیکٹرمیں ایک کلومیٹر بھی پختہ نہیں ہوا۔اُنہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت نے کاغذوں میں صوبے کے مختلف اضلاع میں کام شروع کروانے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔صوبائی حکومت کا مرکزی حکومت کے ساتھ چپقلیش کی وجہ سے مرکزی حکومت صوبے کو کوئی فنڈدینے کے لئے تیار نہیں ہے۔بجلی کے رائلٹی کے مد میں ہمراے مرکزی حکومت نے110ارب روپے صوبے کو دیا۔مگر اب نوازشریف حکومت میں عمران خان کے باربار دھرنوں کی وجہ سے بجلی کی رائلٹی کا33ارب روپے سالانہ روکے رکھا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا صوبہ شدید مالی بحران کا شکار ہے۔اس وقت صوبائی حکومت کے پاس ملازمین کے تنخواہوں کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ترقیاتی کام کیاخاک کریں گے۔چترال کے لوگوں کیلئے گولین گول پاؤر پراجیکٹ پیپلز پارٹی حکومت کا ایک اعظیم تحفہ ہے۔جوکہ ابھی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔جس کو راجہ پرویز اشرف نے منظور کیا تھا۔لواری ٹنل پراجیکٹ ایک ریل ٹنل تھا جوکہ ناکام ٹنل تھا۔اس کی ڈیزائن کو میں نے اپنے دور حکومت میں گیلانی اور ارباب عالمگیر سے درخواست کرکے روڈ ٹنل میں تبدیل کیا۔جس کی وجہ سے اس ٹنل کا تخمینہ لاگت 8ارب سے بڑھ کر18ارب ہوگیا اور چوڑائی میں10فٹ اور اونچائی میں 5فٹ کا اضافہ ہوا۔جوکہ پیپلز پارٹی کے حکومت کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔جبکہ پی ٹی آئی کے صوبائی وزیراعلیٰ نے لواری ٹنل کی تعمیر کیلئے2ارب روپے کا اعلان کرنے کے باوجود ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔اُنہوں نےکہا کہعبداللطیف نے اپنے پریس کانفرنس میں جن منصوبوں کا ذکر کیا ہے وہ منصوبے اس دور حکومت میں نہیں ہونگے۔کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت صرف پانج اضلاع میں کام کرتا ہے۔جن میں نوشہرہ،صوابی،چارسدہ،لوئردیر اور اپر دیر شامل ہے۔چترال ان کے ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔اگر ہوتا تو سیلاب اور زلزلے سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے فنڈز چترال کو مل جاتے۔پی ٹی آئی کی ضلع قیادت اگر چترال کے ساتھ مخلص ہے تو ان کو بھی اپنی حکومت کو defendکرنے کے بجائے ہمارے ساتھ ملکر سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ چترال کی بحالی کے لئے آواز اٹھائیں۔سیلاب اور زلزلہ کی بحالی اور متاثرین کو جو معاوضہ ابھی تک چترال کو ملے ہیں ان میں 80فیصد حصہ مرکزی حکومت کا ہے۔میرا مطالبہ پی ٹی آئی کے دوستوں سے یہ ہے کہ ان کے وزیراعلیٰ اور عمران خان نے چترال آکر سیلاب سے تباہ شدہ پلوں اور سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کیلئے کیے تھے وہ پورا کروائیں کیونکہ ضلعی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق15ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔15ارب روپے نہ سہی 5ارب بھی صوبائی حکومت سے چترال کو دلوائیں تو ہم ان کو مانیں گے۔خالی زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوگا۔کرپشن اور کمیشن سسٹم موجودہ حکومت میں کم ہونے کے بجائے بڑھ چکا ہے۔جب یہ حکومت ختم ہوگی تب پتہ چل جائیگا کہ کتنے فرشتے ہیں۔لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بھی تباہ کررکھا ہے۔اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے دعوے تو بہت ہوئے مگر مقامی حکومتوں کو ابھی تک نہ اختیارات ملے ہیں اور نہ ہی ترقیاتی فنڈ سب ڈھونگ اور دھوکہ دہی ہے۔کیونکہ پچھلے چارسالوں میں پی ٹی آئی کی قیادت نے صرف دھرنا دیا۔ناچ گانوں سے ہمارے کلچر کو بھی تباہ کیا۔کبھی بھی صوبے کے حقوق کی بات نہیں کی۔اور نہ ہی صوبے میں کوئی تبدیلی لائی۔عوام بہتر جج ہیں2018کے انتخابات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں