260

منبر و محراب اور فرقہ بندیـ ـ ـ ـ ـ محمد صابر گولدور چترال

ہم جب چھوٹے تھے کبھی بھی خود کو تقسیم نہیں کرتے تھے ـ  بچپن کے دوستوں کے ساتھ گھل مل جاتے ، مل جل کر کھیلتے تھے اٹھتے تھے بیٹھتے تھے ـ  کبھی یہ نہیں کہا کہ تم فلاں ہو چاہے وہ پڑوس کے دور سے ہی کیوں نہ ہوں ـ اکثر ایسے دوست بھی بنالیے تھے جن کو ہم سرے سے جانتے تک نہیں تھے ـ دل میں پیار محبت کے جذبات ہمدردی ایک دوسرے کی خیر خواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی ـ  خیر بچپن تو بچپن تھا ـ آج جب میں سوچتا ہوں تو  ہم بڑھے ہو گئے ہیں پختہ اور سنجیدہ ہونے کے بجائے مزید بگڑتے جارہے ہیں ہم اکیلے ہوتے جارہے ہیں آخر کار بڑی سوچ بچار کے بعد میں ایک نقطے پر پہنچ گیا ـ ہماری اخلاقی  زوال پستی اور  باہمی کدورت کی وجہ آخر کیا ہے ؟فرقہ بندی

 میں سکول کے زمانے ہی سے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھتا آیا ہوں اور ساتھ میں حدیث پاک کا مطالعہ بھی جاری رہا ـ میں نے بڑی کوشش کی قرآنِ پاک پڑھ کر خود کو سنی ثابت کر سکوں مگر مجھے ناکامی ہوئی پھر مزید میں نے قرآن پاک کو کھول کر پڑھا مگر اس دفعہ بھی مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مجھے نہ کوئی شیعہ ملا نہ بریلوی ملا نہ دیوبندی اور نہ ہی اہلحدیث ـ میں نے مزید کوشش کی کہ نبی ﷺ اور صحابہ رض کی زندگی کا مطالعہ کروں اور خود کو کسی مسلک فرقہ یا جماعت سے جوڑوں مگر یہاں بھی  مجھے ناکامی ہوئی ـ  ہر جگہ ناکامی کے بعد ماسوائے ایک  مسلمان کے اپنی اور کوئی شناخت اور پہچان نہ ملی اس کے برعکس جہاں کہی بھی فرقہ کی بات آئی تو رد اور اس سے دور رہنے کی آئی اور اس کو گناہ کہا گیا ـ ان روشن اور واضح احکامات کے باوجود ہم سبھی کچھ ہے بس مسلمان نہیں ہے ـ ہم فرقوں میں کھو کر بٹھک گئے ہیں ـ  ہماری اصل شناخت ہی گم ہو گئی ہے ـ  مسلکی بنیاد پر اپنی اپنی پہچان اور شناخت بنالی ہے ـ ہمارا رزوال یہی سے شروع ہوتا ہے ـ  یہی سے نفرت کدورت اور دشمنی جنم لیتی ہیں ـ  دونوں جانب سے لفظی جنگ کا محاذ کھلتا ہے  الفاظ کے وار سے اس جنگ کی شروعات ہوتی ہے پھر کافر کے فتوے لگتے ہیں اور انجام اس کا انسانیت کی تذلیل پر ختم ہو جاتی ہے ـ معاشرتی اقدار اس چقلش میں پاؤں تلے رونڈ ڈالے جاتے ہیں ـ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے جاتے ہیں ـ  آنکھیں بند کرکے حق و صداقت کی نفی کی جاتی ہے  ـ ہر فریق اور فرقہ اپنی بات منوانے کےلیے جھوٹ لغو اور من گھڑت روایات کا سہارا لیتی ہے ـکسی بھی معاشرہ میں  افراد کی یکجہتی کو دوام اور بقا بخشنے کےلیے  کسی ایک قائد یا لیڈر کی ضرورت پڑتی ہے اور کسی سوسائٹی کو ایک نظریہ اور فلسفہ پر اکھٹا کرنے کےلیے ایک جامع  نصاب ہی کی ضرورت ہوتی ہے ـ اس حوالے سے یہ حکم ہمیں دیا گیا ہے کہ تمہارے لیے ماڈل اور لیڈر جناب نبی اکرم ﷺ ہیں  اور تمہارا نصاب بحیثیت امت قرآن و حدیث ہے ـ کیا خوب ہوتا کہ ہم ہزار فرقوں مسلکوں کی بجائے ایک امت ایک جان کی مثال پیش کرتے تو اغیار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے ـ کیا آپ کو پتہ ہے اس فرقہ بندی کی شروعات ہی  محراب و منبر سے ہوئی ہے اور اس کا اختتام بھی محراب و منبر ہی سے ہوگا ـیہ ذمہ داری ہمارے اکابرین اور علمائے کرام کی ہے کہ وہ اپنے مواعظ میں عوام الناس کو قرآن  و حدیث کی جانب لائیں اور اتفاق امت پر کام کریں  اور فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات کی حوصلہ شکنی کریں  ـ  اس موضوع پر میں لکھتا رہوں گا اپنے قارئین کی توجہ اس جانب مبزول کراتا رہوں گا اور قرآن و حدیث کی بالادستی و اہمیت کا ذکر کرتا رہوں گا ـ علمائے کرام کو چاہئے کہ  منبر و محراب کی تقدس کا خیال کریں اور مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیں نہ کہ آپس میں باہمی جذبات کو بھڑکائیں ـ اس حوالے سے بہت سے جید علمائے کرام اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں مگر چند شر پسند عناصر فرقہ واریت کو حوا دے رہے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ،  امت مسلمہ کے اندر بے چینی پھیلانا اور امت مسلمہ کو اندر سے کمزور کرنا ہے ـ ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ان شر انگیزیوں سے خود کو باخبر رکھنا ہوگا اور دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا ہوگا یہی ہم سب کے مفاد میں ہے ـ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں