275

’’میری داڑھی میں تنکے‘‘۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات

خواب تھا یا بیداری فرق نہ کرسکا ۔۔آواز سریلی تھی شرین تھی ۔۔کسی پر خلوص کی تھی ۔۔کسی ’’آینہ نما ‘‘شخصیت کی تھی ۔۔بہت پُرانہ جملہ پھر سے دُھرایا ۔۔ہم سکول میں یہ کہانی یاد کیا کرتے تھے ۔۔استاد نے پہلی دفعہ سنایا تو بہت تعجب ہوا ۔۔وزیر کی ہوشیاری پر غش غش کر اٹھے ۔۔ہماری داڑھیاں نہیں تھیں ۔۔استاد نے اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیرا ۔۔پھر ہنس کر کہا کہ جب تم بڑے ہوجاؤ گے تو تم چوری نہ کرسکو گے کیونکہ تمہاری داڑھیوں میں تنکے ہونگے ۔۔ایک شریر ساتھی تھا پانچویں کی کلاس تھی اس کی شرارت غضب کی تھی سب کو ہنساتے ۔۔اس نے جھٹ سے کہا کہ سر ہماری بہنوں کا کیا ہوگا ۔۔سر نے ٹوکا ۔۔پھر یہ معمہ عمر بھر حل نہ ہوسکا ۔۔اب جب میری داڑھی ہے ۔۔تو پھر سے یہ آواز کانوں سے ٹکراتی ہے ۔۔’’چور کی داڑھی میں تنکے‘‘ایک دن بے فکری میں یہ آواز پھر سے آئی ۔۔میں نے جھٹ سے اپنی داڑھی پکڑ لی ۔۔میرے ہاتھ میں بالوں کی جگہ تنکے ہی تنکے آئے ۔۔میں تڑپ کے رہ گیا ۔۔میں نے تنکے گرانے کی کوشش کی مگر تنکے تھے کہ چمٹے ہوئے تھے ۔۔میں نے چیخنا چاہا ۔۔مگر آواز پھر سے آئی ۔۔’’نادان انسان چیختے کیوں ہو ؟۔۔دنیا کی وہ کونسی چوری ہے جو تم نے نہیں کیا ۔۔تم نے احساس تک نہیں کیا ۔۔کہ میں چوری کر رہا ہوں ۔۔یہ تنکے داڑھی سے چمٹتے گئے ۔۔اب یہ گرینگے نہیں ۔شاید موت ان کو گرائے ۔۔
نادا ن انسان تم نے وقت چوری کی ۔تم استاد تھا کلاس روم میں ۴۰ بچے تھے ۔تم نے۵ منٹ ضائع کیا ۔ہر بچے کا پانچ منٹ ضائع ہوا پانچ کو چالیس سے ضرب دیں تو دوسو منٹ بنتے ہیں ۔۔ایسا روز تم نے کیا ۔۔۔تم نے محبت اور احترام چور ایا ۔۔تم نے احساسات چورایا ۔کسی کے بارے میں تیرے احساسات کچھ اور تھے اظہار کسی اور طریقے سے کرتے تھے تم دل کی بات زبان پہ نہیں لاتے تھے ۔۔تم نے نیتیں چوری کی ۔تمہاری نیت کبھی درست نہیں رہی ۔۔تم نے دلوں کو چورایا ۔دل دینے والے کو اندھیرے میں رکھا ۔۔تو لیڈر تھا تم نے لوگوں سے ان کا ضمیر چورایا ۔۔تو آفیسر تھا تو نے ماتحتوں کی ہمدردیاں چورائی ۔۔تو بزرگ تھا ۔۔لوگوں سے ان کا اکرام چورایا ۔۔تو نے سفارش سے لوگوں کا حق چورایا ۔۔تو نے امتحان میں نقل کرایا شاہین بچوں کی صلاحیت چورائی ۔۔تونے سچ چورائی ۔جھوٹ بولا ۔۔تو نے ماں سے اس کی محبت ، اس کی ہمدردی اس کی گود کی خوشبو چورائی ۔۔پھر اس کی نافرمانی کی ۔۔۔تو نے باپ سے اس کا احترام چورایا ۔۔پھر اس کی دولت ہتھیا لی ۔۔پھر لا پرواہ ہوئے ۔۔وہ بوڑھا ہوگیا تو تو نافر مان ہوگیا ۔۔۔تو نے آنکھیں نیچی نہیں رکھی ۔۔ایک حسین چہرے سے حسن چورایا۔۔دل سے دل کی دھڑکنیں چورائی۔۔تو ٹھیکہ دار تھا ۔تو نے قوم کی دولت غصب کی۔۔دوکاندار تھا تجارت کی صداقت چورائی۔۔تو نے کارخانہ لگایا ۔۔چیزوں کی اصلیت چورائی ۔۔دو نمبر کی چیزیں بنائی۔۔تو ڈاکٹر تھا مریض کا علاج چورایا ۔۔وکیل تھا قلم بھیجا ۔ناحق کی حمایت کی ۔۔تو کھیلاڑی تھا اپنی صلاحیت بھیجدی ۔۔تو نے جوانی سے اس کی مستی چورائی ڈرگ سے، نشہ سے ،بے راہروی سے اس کو برباد کیا ۔۔میں تڑپتا رہا ۔پھر میں نے کہا کہ آخر ان تنکوں سے نجات کا بھی کوئی راستہ بتاؤ ۔۔آواز ائی ۔۔۔بہت دیر کر دی ۔۔بس توبہ ہے۔۔ کائنات کے مالک کے حضور گڑگڑاؤ مگر حقوق العباد پھر بھی کیا معاف ہونگے ان سب سے معافی مانگنا ہو گا ۔۔کہ وہ تجھے معاف کریں یہ بھی ممکن نہیں ہے ۔۔ارے یہ ممکن نہیں ہے ۔۔تجھے تنکوں سے نجات نہیں مل سکتا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں