197

شہزادہ فرہاد عزیز شہید ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، انکی کمی کو پورا نہیں کیا جا سکتا

چترال(نامہ نگار) سات دسمبر کو چترال سے اسلام آباد جانے والے پی آئی اے کی پرواز PK661 میں چترال کے پیرا گلائڈنگ پائلٹ شہزادہ فرہاد عزیز اور اس کی جوان بیٹی طیبہ عزیز جو اسلام آباد کے ایک یونیورسٹی میں داخلہ لینے کیلئے اپنے والد کے ساتھ اسی جہاز میں سفر کررہی تھی دونوں حادثے کے شکار ہوئے اور اس دار فانی سے رحلت کر گئے۔ شہزادہ فرہاد عزیز شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے مگر طبیعت میں درویشی اور نہایت عاجزی تھی۔ وہ نہ صرف ایک چھتری بردار پائلٹ تھے بلکہ سماجی کارکن بھی تھے اور ہمیشہ ریسکیو اور قدرتی آفات کے وقت ہر فلاحی کام میں پیش پیش رہتے ۔ وہ ایک انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ پیرا گلائڈنگ کے ساتھ ساتھ وہ بہترین کوہ پیما، تیراک، اور سیاح بھی تھے۔ مگر پیرا گلائڈنگ کے صنعت اور فن کو اس نے چار چاند لگائے۔7دسمبر یعنی حادثے والے روز اسی جہاز میں پشاور سے چترال سفر کرنے والے مقامی وکیل وقاص احمد کا کہنا ہے’’میں اسی دن اسی جہاز میں پشاور سے آیا تھا مگر جہاز میں پہلے سے خرابی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب جہاز نے لواری ٹاپ عبور کیا تو اس میں اچانک زوردار دھماکے جیسے آواز آئی اور ایک ونگ ہلنے جلنے لگا ۔ اس کے بعد جہاز چترال ائیر پورٹ پر معمول کے مطابق نہیں اتر سکابلکہ وہ Divert ہوکر دروش تک گیا اور پھر مْڑ کر چترال کے ہوائی اڈے کی طرف بڑھا مگر اترتے وقت ہمیں ایسا لگا جیسا کہ ہمیں زمین پر پھینکا گیا۔ شہزادہ مقصود الملک جو شہزادہ فرہاد عزیزکے قریبی رشتہ دار ہیں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے سب سے پہلے فرہاد کے بیٹے کے خون کا نمونہ دیا مگر دو دن بعد فون آیا کہ DNA ٹیسٹ کیلئے دوبارہ آئیں، اس کے بعد فون آیا کہ مرنے والوں کے ماں کو بھیجا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ڈیاین اے ٹیسٹ کیلئے بار بار چترال سے کیسے جایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے صوبائی حکومت پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو وہاں پہنچنا چاہئے تھا اور مرنے والوں کے لواحقین کے پاس بھی آنا چاہئے تھا مگر یہاں سب کچھ بد انتظامی کا شکار ہورہا ہے۔ شہزادہ فرہاد عزیز نے امریکی پائلٹ Brad Sander سے اڑان سیکھا اور اس کے بعد ہندوکش پیرا گلائڈنگ ایسوسی ایشن قائم کرکے درجنوں لوگوں کو تربیت دی جو آج ملک کے ہر حصے میں پیرا گلائڈنگ کا کامیاب مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے نمائندے نے 2014 میں شہزادہ فرہاد عزیز کے ساتھ ایک ٹنڈم فلائٹ کے ذریعے 15500 فٹ کی بلندی پر اڑان کی اور پہلے صحافی کے طور پر انہوں نے ہوا میں قدرتی مناظر کی دستاویزی فلم بنائی۔ وہ ایک ٹنڈم پائلٹ تھے جنہوں نے 6,500 میٹر بلندی پر پرواز کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ تین گھنٹے کے اس پرواز (اڑان)میں انہوں نے 44 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔
سیف اللہ جان جو خود بھی ایک پیرا گلائڈنگ پائلٹ اور HIKAP کے بانی رکن ہیں کا کہنا ہے کہ شہزادہ فرہاد عزیز کے المناک موت پر مجھے یہ شعر یاد آتا ہے کہ’’ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔ ایک شحص سارے شہر کو ویراں کرگیا‘‘۔ فرہاد عزیز کے موت پر ہر دل غمگین، ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اس کی اور اسکی جواں سال بیٹی کی جسد خاکی کو ابھی تک چترال نہیں پہنچا یا گیا ہے جو کہ لواحقین کے غم میں مزید پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ان کے لواحقین مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی جسد خاکی کو فوری طور پر ورثاء کے حوالہ کیا جائے تاکہ اسے بروقت سپرد خاک کیا جاسکے تاکہ ان کی غم میں کسی قدر کمی آسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں