چترال ( نمائندہ ڈیلی چترال) کمانڈنٹ چترال سکاوٹس کرنل نعیم اقبال نے تمام لائن ڈیپارٹمنٹ چترال سے کہا ہے ۔ کہ سیلاب کے حوالے سے مانیٹرنگ کا نظام اسی طرح جاری رہے گا ۔ جس طرح سیلاب کے ابتدائی دنوں میں اس سلسلے میں سرگرمیاں جاری تھیں ۔ اور بعض اداروں کو موقع دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے ۔ کہ وہ اپنی بحالی کے ذمہ داریوں میں سستی کا رویہ اپنائیں ۔ ہم زیادہ بہتر انداز میں بحالی کے کاموں کو انجام دینے کیلئے اُنہیں وقت دے رہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز چترال سکاؤٹس ہیڈ کوارٹرز میں سیلاب سے متعلق بحالی کے کاموں کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ ایک غیر معمولی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چترال عبد الغفار ، فلڈ کنٹرول کے ذمہ دار لفٹننٹ کرنل محمودالحسن ، ایم پی اے چترال سلیم خان ، آرمی اور سول اداروں کے آفیسران ، غیر سرکاری اور سماجی اداروں کے نمایندگان موجود تھے ۔ انہوں نے کہا ۔کہ حالیہ سیلاب چترال کی تاریخ کی سب سے بڑی آفت تھی ۔جس نے چترال کے طول و عرض میں انسانی جانوں سے لے کے جانوروں ، املاک ، نہروں ، سڑکوں اور زمینات و باغات اور فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ لیکن لوگوں نے حوصلے اور ہمت سے کام لے کر فورس اور سول اداروں کے شانہ بشانہ اس مصیبت سے نکلنے کیلئے جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ۔ جس کیلئے چترال کے لوگ اور سماجی ادارے داد و تحسین کے مستحق ہیں ۔ اور یہ کام اس لئے ممکن ہوا ۔ کہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے مشترکہ طور صحیح وقت پر صحیح فیصلے کئے گئے ۔ کمانڈنٹ نے کہا ۔کہ ہماری کوشش ہے کہ چترال کے جو لوگ جانی نقصان آٹھا چکے ہیں اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اُن کو مستقبل میں مزید جانی اور مالی نقصانات سے بچانے کیلئے محفوظ مقامات پر آباد کرنے کیلئے اقدامات کریں ۔ کیونکہ متاثرہ مقامات دوبارہ رہنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اس موقع پر موجود ایم پی اے سلیم خان اور دیگر آفیسران نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ۔ کہ متاثرین کیلئے حکومت سٹیٹ لینڈ میں مکانات تعمیر کرکے اُنہیں بسانے کیلئے اقدامات کرے ۔ یا کمپنسشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ بغیر سود طویل المیعاد قرضے فراہم کرے ۔ تاکہ متاثرین بتدریج انہیں واپس کر نے کے قابل ہو سکیں ۔ جبکہ موجودہ کمپنسشن کی رقم متاثرین کی بحالی کیلئے بالکل ناکافی ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں مختلف محفوظ مقامات پر بڑی مقدار میں سٹیٹ کی زمین موجود ہیں ۔ جہاں ان متاثرہ لوگوں کو بسانے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہیں ۔ لوگ انتہائی پریشانی میں ہیں ۔کیونکہ سردیوں کے دن انتہائی قریب آرہے ہیں ۔ کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس نے کہا ۔ کہ چترال کے سیلاب اورملک کے میدانی علاقوں کے سیلاب میں بہت فرق ہے ۔ میدانی علاقوں میں سیلابی پانی کے گزرنے کے بعد اسی فیصد میٹریل دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن چترال جیسے پہاڑی علاقوں میں سیلاب زمین سمیت سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے ۔ جہاں کسی چیز کا وجود ہی باقی نہیں رہتا ۔ اس لئے چترال کے متاثرین زیادہ حکومتی مدد کے محتاج ہیں ۔ کمانڈنٹ نے کہا ۔ کہ متاثرین کیلئے خوارک کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ دو سو ٹن سے زیادہ راشن اب بھی سٹاک پر موجود ہے ۔ جبکہ متاثرین کو راشن دی بھی جا چکی ہے ۔ اس موقع پر ایف ڈبلیو نے چترال میں روڈ ز کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ۔ کہ گرم چشمہ روڈ اور چترال بونی روڈ کھول دیا گیا ہے ۔ جبکہ ایون کالاش ویلی روڈ دوباژ سے آگے تک بحال کیا گیا ہے ۔ ایکسین سی اینڈ ڈبلیومقبول اعظم نے کہا ۔ کہ جیل روڈ ، موژ گول پل ، اور سنگور روڈ پر کام جاری ہے ۔ بائی پاس روڈ مشینری اور میٹریل تیار کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ تیئس میں سے بیس روڈ جبکہ بارہ میں سے گیارہ پُل بحال کئے جا چکے ہیں ۔ لیکن رمبور روڈ زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے مزید وقت لگ سکتا ہے ۔ اجلاس میں ڈسٹرکٹ کونسل ، ہیلتھ ، ایرگیشن ،پبلک ہیلتھ،واپڈا ، فوڈ ، یو ٹیلٹی سٹورز،این ایچ اے ، واپڈا ، فارسٹ ، فوکس اور ایس آر ایس پی کے علاوہ دیگر اداروں نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی ۔ جس پر کمانڈنٹ چترال سکاوٹس نے اُن کے کام کی تعریف کی ۔ تاہم پی ڈی ایم اے کی طرف سے فنڈ کی فراہمی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ اور اُن کے نمایندہ سجاد کو اس حوالے سے اپنی رابطہ کاری میں مزید تیزی لانے کی ہدایت کی گئی ۔ تاکہ فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے بحالی کی راہ میں مشکلات حائل نہ ہوں ۔