Site icon Daily Chitral

ہماری بات حکایت نہیں جو ختم ہوئی۔۔یہ حرفِ حق ہے عبارت نہیں جو ختم ہوئی۔۔ازقلم: حسیب اعجاز عاشرؔ ،ابوظہبی۔متحدہ عرب امارات


پروفیسرسید مشکور حسین یاد کے اعزاز میں ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کی جانب سے ادبی محفل و عشائیہ
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کی دولت کدہ پے صدارتی ایوارڈ (ستارہ امتیاز)یافتہ نامور شاعرو ادیب، معروف انشائیہ نگار و مزاح نگار اور ماہر تعلیم پروفیسرسید مشکور حسین یادکے اعزاز میں بھرپور ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا۔پروفیسرسید مشکور حسین یادکسی تعارف کے محتاج نہیں ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے یہ خالق ستمبر ۱۹۲۵ کو حصار،بھارت میں پیدا ہوائے،ابتدائی تعلیم لدھیانہ جبکہ گریجویشن کی ڈگری جالندھر سے حاصل کی۔ہفت روزہ ’’پکار‘‘ کی ادارت کے لئے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔حصول پاکستان کی جدوجہد میں ان والدہ محترمہ، شریک حیات، بھائی اور بیٹی سمیت کئی عزیزو اقارب کو شہید کر دیا گیا نومبر ۱۹۴۷ میں پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا ،اسی لئے انہیں’’ مجاہد تحریک پاکستان‘‘ کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔تعلیم کو جاری رکھا اور پھر اُردو اور فارسی میں ماسٹر کیا ۔ماہنامہ ’’زعفران‘‘ اور ماہنامہ ’’چشمک‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ تعلیم سے منسلک ہو گئے اور درس و تدریس میں بھی اپنا ایک خاص مقام حاصل کیا۔مقبول ترین تصانیف میں ’’دشنام کے آئینے میں‘‘،’’آزادی کے چراغ‘‘، ’’جوہر اندیشہ‘‘، ’’یادوں کے چراغ‘‘شامل ہیں۔
محفل کی صدارت معروف ادیب ڈاکٹر سلیم خان کے حصہ میں آئی ، نظامت کے فرائض سلمان احمد خان نے حسب سابق بڑے احسن انداز میں نبھائے۔تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت ندیم احمد ذیست نے حاصل کی اور سلمان احمد خان نے نعتِ رسول پاکﷺ پیش کی۔
قلب و نظر نور کا وقت ظہور ہے
ذکر خدا کے بعد جو ذکرِ حضورﷺہے
جسے سامعین نے بڑی عقیدت و احترام سے سماعت فرما یا اور دیر تلک روحانی سحرکے زیراثر ہی رہے۔محفل میں طارق حسین بٹ اور سلیم الدین صدیقی کی خصوصی شرکت نے محفل کی ادبی رونق میں اضافہ کر دیا۔کلام پیش کرنے والے شعراء کرام میں سلمان طارق بٹ، ندیم احمد ذیست، مسرت عباس مسرت، عامر حفیظ، عبدالسلام عاصم، سلمان احمد خان، آصف رشید اسجد، فرہاد جبریل، فقیر سائیں، سعید احمد پسروری، ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی اور مشکور حسین یاد شامل تھے۔شعراء نے اپنے اپنے دلکش کلام کو منفرد لب و لہجے میں پیش کر کے محفل میں خوب رنگ جمایا اور سامعین سے دل کھول کر داد و تحسین وصول کی ۔مہمان خصوصی مشکور حسین یاد کی پیش کی گئی حمد ، نعت اور چند غزلوں نے محفل کو بامِ عروج بخشا ،سامعین ’’واہ ۔واہ اور سبحان اللہ ۔سبحان اللہ‘‘سے پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔
صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر سلیم خان اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسرسید مشکور حسین یاد کو انکی ادبی و تعلیمی خدمات کے اعتراف میں خوب خراج تحسین پیش کیا اور ایک تسلسل سے خوبصورت ادبی محافل کے انعقاد پر ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کی کاوشوں کو بھی سراہا۔تقریب کے میزبان ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے اختتامیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسرسید مشکور حسین یاد سے اپنے دیرنیہ تعلقات اور اُسے وابستہ یادگار واقعات کو سماعتوں کی نذر کیا اور انکی شرکت کو باعثِ اعزاز قرار دیا اور رونق بخشنے پر جملہ حاضرین سے اظہار تشکر کیا جن کی شرکت اور بھرپور دلچسپی نے نشست کو یادگار بنا دیا۔ڈاکٹر صاحب نے اِس خاکسار(حسیب ) کے مستقبل قریب میں پاکستان منتقل ہونے کے فیصلے پر نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیااور کامیابیوں کے لئے دعائیہ کلمات بھی پیش کئے۔ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے اپنے والدِ محترم شوکت واسطی(مرحوم)کا یہ شعر بھی سماعتوں کی نذر کیا
ہماری ذات کو دیکھو تو ہم حقیر فقیر
ہمارا مرتبہ دیکھو تو ہم عظیم ا لشان
شاندار ادبی نشست کے آخری لمحات دستک دے چکے تھے اورنوجوان شاعر فرہاد جبریل نے اپنے پہلا مجموعہ کلام’’تم بھی حد کرتے ہو‘‘ اور طارق حسین بٹ نے اپنا دوسرا نثری مجموعہ’’نخلِ آرزو‘‘ بھی مہمان خصوصی سید مشکور حسین یاد کو پیش کیا۔اس موقع پر طارق حسین بٹ نے یہ اعلان بھی کیا کہ اُنکا تیسرا نثری مجموعہ ’’حیات جاوداں‘‘زیرِ اشاعت ہے جسکی تقریب رونمائی شہراقبال میں ماہ دسمبر میں عمل میں لائی جائے گی۔بعدازاں تمام شرکاء نے گروپ فوٹو سیشن میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ تقریب کے اختتام پر پُرتکلف عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔۔خوبصورت ادبی نشست میں شعرا کے پیش کئے گئے خوبصورت کلام سے خوبصورت اشعار باذوق قارئین کے لئے پیشِ خدمت ہیں،جو آپکوبھی خوب محظوظ کریں گے( انشاء اللہ تعالی)۔۔۔
ارسلان طارق بٹ
شمعِ عشق ہوں میرے ہسارر میں رہنا
بجھا نہ دے نفرت کی ہوا مجھ کو
******
ندیم ذیستؔ
وہ جو خواب تھے جو خیال تھے،وہی دھڑکنوں سے جدا ہوئے
میری زندگی کا سوال تھے، وہی دھڑکنوں سے جدا ہوئے
******
مسرت عباس مسرتؔ
جب سے وہ شخص میرے لئے اک خواب ہو گیا
لگتا ہے جیسے بند کوئی باب ہو گیا
******
عبدالسلام عاصمؔ
میں دریا کنارے چلا جا رہا ہوں
ٹھکانے سے اپنے ہٹا جا رہاہوں
******
سلمان احمد خان
قفل ٹوٹے گا قصرِ شاہی کا
آج مِل کر عوام دستک دے
******
حفیظ عامرؔ
وہ جس کی تم نے ابھی مجھ سے بات کی ہے میاں
وہ مورتی تو میرے سومنات کی ہے میاں
******
آصف رشید اسجد
یہ لوگ تو پیتے ہیں بہت زہر تنافر
حیرت ہے کہ چہرا یہاں نیلا نہیں کوئی
******
فرہاد جبریل
نجانے کیوں مجھے منزل پہ یہ خیال آیا
میں اپنے سائے کو رستے میں چھوڑ سکتا تھا
******
فقیر سائیںؔ
کیسے سمجھائیں کہ خوابوں کی ضرورت کیا ہے
ساری باتوں کے جوابوں کی ضرورت کیا ہے
******
سعید پسروریؔ
یہ محبت کا دیا کہہ دوں جسے میں
تیرے سینے میں ایسا دل نہیں ہے
******
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی
فلک سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرے شہاب پر شہاب
کوئی پکارتا رہا نہیں نہیں زمین پر
قلندری شہنشاہی سے دیر پا ہے عالی جاہ
ہمارے پاس بیٹھ جائے یہیں زمیں پر
اسے یہ وہم ہو گیا ہے کہ آدمی ہے فتنہ گر
رگڑ رہا تھا سانپ اپنی آستیں زمین پر
******
سید مشکور حسین یاد
ہماری بات حکایت نہیں جو ختم ہوئی
یہ حرفِ حق ہے عبارت نہیں جو ختم ہوئی
جہاں پہ ہم ہیں وہاں روشنی تو پھیلے گی
ہمارا ہونا ضرورت نہیں جو ختم ہوئی
متاع اہل نظر کا خزانہ رکھتے ہیں
ہماری قدر ہے، قیمت نہیں جو ختم نہیں
***ختم شد***

Exit mobile version