Site icon Daily Chitral

اختلافی نوٹ ۔۔۔ روشن کل کی ضمانت۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی


تاریخی فیصلہ آگیا۔ یقیناًکوئی شک نہیں کہ ایک نئی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔ اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے قیاس آرائیاں دم توڑ دی گئی ہیں۔ دہشت گردی سے متعلق 41کیسز فوجی عدالتوں کے بھیجنے کی تیاری زور پکڑ گئی ہے جو اس کیس کی وجہ سے التواء کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ ان مجرموں کے پھندے بھی تیار ہو گئے ہیں جن کی پھانسی کے خلاف عدلیہ نے حکم امتناعی جاری کیا ہوا تھا۔ کیوں کہ اس فیصلے کے ساتھ ہی حکم امتناعی کے بارے میں بھی رائے بہت حد تک صاف ہو گئی ہے۔
17 رکنی بینچ نے سماعت کے دوران بہت سے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا۔گو مگو کی سی کیفیت میں 11:06 کی اکثریت سے فیصلے نے معاملات کو واضح کر دیا۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت دیگر 10ججز نے حمایت جب کہ آنے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ صاحب سمیت 06ججز نے اختلافی رائے دی ۔ بے شک حکومت سمیت ہر طبقہ اکثریتی فیصلے سے بہت خوش ہے اور اسے اپنی کامیابی بھی تصور کر رہا ہے اور اس فیصلے پہ خوشی یقیناًبنتی بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ 06 جسٹس صاحبان کی اختلافی رائے بھی یقیناًتاریخ کا حصہ ہے اور یہ اختلافی رائے پاکستان کے روشن کل کے لیے بہت اہم ہے۔ کیوں کہ اختلاف ہمیشہ کسی نہ کسی بہتری کی بنیاد بنتا ہے۔
سانحہ پشاور کے بعد سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے باہمی اتفاق رائے سے قائم ہونے والی فوجی عدالتیں یقیناًملک سے دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پھانسیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ لیکن کیا فوجی عدالتیں پاکستان کے مستقبل میں مستقل حقیقت کے طور پر وطن عزیز کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں؟ میرے جیسے طالبعلموں کا یقیناًجواب نفی میں ہو گا۔ کیوں کہ فوجی عدالتیں ایک عارضی حل تو ہو سکتی ہیں۔ لیکن مستقل بنیادوں پر انصاف کی فراہمی یقیناًسول عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ” پارلیمنٹ کے ترمیم کے اختیارات لا محدود نہیں” ایک طالبعلم کی حیثیت سے اگر دیکھوں تو ان کے الفاظ مکمل طور پر حقیقت میں درست ہیں۔ ہمارا پارلیمانی ڈھانچہ ہی چوں چوں کا مربہ ہے۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے والے ارکان اسمبلی جس طریقے سے اسمبلی کے رکن بنتے ہیں وہ ڈھکا چھپا ہرگز نہیں ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ بہت کم کوئی قابل پاکستان ایوان کا رکن بن پاتا ہے۔ اور جو محدودے چند قابل اراکین موجود ہیں وہ بھی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ایسے فیصلوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں جن سے ان کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا۔ جس ایوان میں پہنچنے کے لیے طریقہ کار ہی مبہم ہے وہ ایوان کیسے آئینی ترامیم میں لا محدود اختیارات کا حامل ہو سکتا ہے۔ پورے ایوان کو پرکھ کر دیکھ لیں آ پ کو آٹے میں نمک کے برابر ایسے اراکین نظر آئیں گے جو دھونس، دنگا فساد، کرپشن، غارت گری وغیرہ کی لعنتوں سے بچ کر ایوان میں پہنچے ہیں۔ اور یہ اراکین اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے کے ترامیم پر اثر انداز ہو سکیں۔حمایت میں فیصلے کی سب سے بنیادی وجہ یہ بنی کہ پارلیمنٹ کے اراکین عوام کے نمائندہ ہیں۔ لیکن کیا حقیقی معنوں میں یہ اراکین عوام کے نمائندہ آج تک بن پائے ہیں؟ کیا واقعی عوامی امنگوں کو پارلیمنٹ کے اراکین پورا کر پائے ہیں ؟ یا صرف اپنے خزانوں کو بھرنا مقصور رہا؟ انتخاب یقیناًپارلیمنٹ کے اراکین کے لیے مثبت وجہ ہے آئینی ترامیم کے حق کے لیے ۔ لیکن قابلیت ایک بنیادی شرط بھی ہونی چاہیے۔ اگر ایک پرائمری سطح کے طالبعلم سے بھی سوال کیا جائے کہ موجودہ حالات میں قابلیت و اہلیت کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز صاحبان اہم ہیں یا پارلیمنٹ اراکین ۔ تو فوراً جواب عدلیہ کے حق میں آئے گا۔ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لیے صرف پیسہ او ر سیاسی وابستگی اہم گردانی جاتی ہے۔آپ پورے ایوان کا سروے منعقد کروائیں تو محدودے چند اراکین کے کسی نے مکمل آئین تک کا مطالعہ نہیں کیا ہو گا۔ اس کے برعکس وکیل سے جج بننے کے عمل میں کسی نہ کسی جگہ صلاحیتوں کا عمل دخل لازمی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کی تشریح کا واحد فورم اعلیٰ عدلیہ ہے تو جو ادارہ آئین کی تشریح کے حوالے سے با اختیار ہے اسے پھر آئین میں ترامیم کے حوالے سے اختیار کیوں نہیں؟ ایوان مکمل طور پر سیاسی نوعیت رکھتا ہے۔ جب کہ اعلیٰ عدلیہ قانونی و آئینی حوالے سے اہم ترین فورم ہے۔
آئینی و قانونی ماہرین کی رائے اپنی جگہ لیکن اگر غیر جانبدار رہ کر اس فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو اکثریتی فیصلے میں حمایت سے زیادہ اہمیت اختلافی نوٹ کی ہے۔ کیوں کہ اس اختلاف میں اصولی موقف اختیار کیا گیا ہے۔ فوجی عدالتیں ایک عارضی حل تو ہو سکتی ہیں لیکن مستقل حل نہیں ہیں۔ اختلافی نوٹ کو سامنے رکھ کر مستقل بنیادوں پر سول عدلیہ کو مضبوط بنانے اور اصطلاحات کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اگر عدلیہ کو تحفظ نہ دیا گیا اور زور فوجی عدالتوں پر ہی رہا تو طاہر خان نیازی کے بہیمانہ قتل کے بعد چھوٹی عدالتیں بھی بروقت انصاف کی فراہمی کے بجائے فوجی عدالتوں پر انحصار کرنے لگیں گی ۔ فوجی عدالتیں دہشت گردوں کو بروقت سزائیں تو دے سکتی ہیں لیکن معاشرے میں انصاف عام آدمی کی دہلیز تک نہیں پہنچا سکتیں۔ اس کے لیے گھوم پھر کے سول عدلیہ پر ہی انحصار کرنا ہو گا اور اس امر کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی وکیل یا جج طاہر خان کی طرح جان سے ہاتھ نہ دھوئے۔ تب ہی معاشرے میں انصاف قائم ہو سکتاہے۔

Exit mobile version