Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

پاکستان میں اُردو کا مستقبل۔۔۔تحریر: اے ایم خان چرون،چترال

fff
ریاست پاکستان میں 6 بڑے اور57 علاقائی زبان بولے جاتے ہیں، اور اُردو پاکستان میں صرف 7فیصد لوگوں کی بولی جانیوالی زبان ہے۔ اُردو زبان مغل دور میں وقوع پذیر ہوئی جوکہ تاریخ کی ارتقائی منازل طے کرکے ہندوستان کی تقسیم کے بعد جب پاکستان وجود میں آئی تو محمد علی جناح نے اُردو کو پاکستان کا قومی زبان ہونے کا درجہ دیا۔ ’لشکری زبان‘ یعنی اُردو مغل دور حکومت میں ایک زبان کی حیثیت سے وجود میں آنے سے ہندوستان کے مسلمانوں کا اِس سے دلی لگاؤ رہی۔ اور جب اُس زمانے کی تاریخ ، ثقافت،اور لٹریچر اُردو میں آگئی تو یہ مسلمانوں میں تاریخی اور جذباتی اہمیت بھی حاصل کی، جو اب بھی ہے۔
ہندوستان میں جب بنارس میں اُردو کی جگہ ہندی کو زبان قرار دینے پرمسلمانوں اور ہندون کے درمیان اختلافات ہوئے تو مسلمانوں میں یہ اِحساس پیدا ہوگئی کہ اُردو مسلمانوں کا زبان ہے،جو مسلمانون میں ایک نئی شناخت حاصل کرلی۔گوکہ ہندوستان کی بدلتی تاریخ اور خصوصاًمسلمانوں کی تاریخ اور لٹریچر اُردو میں نقش تھی،پھر بھی اُردو زبان کی اہمیت مسلمانوں میں اِتنی قوی نہیں تھی، جو اِس واقعے کے رونما ہونے کے بعد ہوا۔
اُردوکا پاکستان میں بحیثیت قومی زبان کا درجہ حاصل کرنا قائداعظم کا فیصلہ تھا،بعد میں پاکستان کے پہلے آئین کے نافذ ہونے سے پہلے بنگالی زبان جوکہ پاکستان کی54فیصد آبادی کا زبان تھا ۔کا پاکستان میں اُردو کے ساتھ قومی زبان کی حیثیت لینے پربنگالی شناخت کی تحریک کا باعث بنا۔آاُردو کو قومی زبان قرار دینے سے پہلے اِس کی حیثیت ایک مشترک زبان یعنیlingua franca کی تھی یعنی جسے پاکستان میں ہر کوئی رابطے کے زبان کے طور پر استعمال کیا،لیکن اِسے قومی زبان قراد دینے کے پیچھے اُس کی تاریخی اہمیت کار فرمابھی تھی۔ جناح نے اُردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ اُردو پاکستان میں قومی زبان ہونے کی صورت میں یہ پاکستانی قوم کو ’متحد کرنے والی قوت ‘ یعنی (unifying force)ہوگی۔
اب جبکہ عدالت کے فیصلے کے بعد فیڈرل کابینہ نے تمام سرکاری ڈپارٹمنٹس کو ایک آرڈر جاری کی ہے کہ پاکستان میں انگریزی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کا مقام دیا جائے۔ اِس بات سے شاید ہر کوئی حیراں ہو چُکا ہوگا کہ بیالیس سال بعد آئین کے آرٹیکل251 کو نافذ کرنے پر عمل درآمد ہونے لگی ۔ آئین کے اِس آرٹیکل کے مطابق پندرہ سال کے اندرایسے اقدامات اُٹھائے جائیں جس سے اُردوکو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے جولائی کے مہینے میں ایک سمری جس میں وفاقی حکومت سے اُردو کو قومی زبان نافذالعمل کرنے کے حوالے سے ایک رپورٹ طلب کرلی تھی جس پر عملدرامد کے حوالے سے جسٹس جواد ایس خواجہ اپنے ایک ریمارکس میں کہا تھاکہ’سیاسی مجبوریوں کو اُردوکو سرکاری زبان نافذکرنے میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔کابینہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔۔۔‘ ۔
وفاقی وزیر احسن اقبال ’ ٹائمز‘ کوایک انٹرویو دیتے ہو ئے اُردو کو سرکاری زبان دینے پر بات کی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ انگریزی زبان سے اُردو زبان میں منتقل ہونے کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ ہم انگریزی کو مکمل طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اُس کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’کہ انگریزی کے ساتھ اُردو رابطے (اور سرکاری بزنس)کا دوسرا زبان ہوگا ‘۔ سپریم کورٹ کا یہ منظق کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ آئین کواُس کے روح کے مطابق نافذ کیاجائے اور انگریزی زبان کی وجہ سے کورٹ کے فیصلے کو سمجھنے کیلئے ایک غریب کلائنٹ کو اپنے وکیل کو زائد رقم ادا کرنا پڑتا ہے، جبکہ احسن اقبال کا فلسفہ کہ اُردو کو سرکاری زبان نافذکرنے سے پاکستان کا جمہوری ہونے میں مدد ہوگا اُن لوگوں کیلئے ’جو انگریزی نہیں جانتے ہیں‘کم ازکم مجھے سمجھ نہیں آتا؟۔اِس انٹرویو کے حوالے سے لکھتے ہوئے زبیدہ مصطفی اپنے ایک آرٹیکل (over to ‘Urdish’) میں اِسے تعلیم کے پس منظر میں بہتر تجزیہ کر چُکی ہے، جوکہ وفاقی وزیر کے انٹرویو کے تناظر میں ہے۔
بہرحال ایک طرف آئیں کو نافذ کرنے کا عمل اور دوسری طرف اُردو اور عالمگیریت کا بڑھتا ہوادباؤ، تعلیم کے ذرائع اور معیار کی بات، اور انگریزی تعلیم کی ضرورت! پھر ایک سوالیہ نشان پیدا کردیتی ہے جس سے ماہرین خصوصاً پاکستان میں اعلی تعلیم کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گوکہ اُردو ترقی کرنیوالا زبان تو نہیں لیکن اُس کے متروک ہونے کے خدشات بھی نہیں۔رائل سوسائٹی میں شائع ہونے والے ایک تحقیق سے دُنیا میں معاشی ترقی کی وجہ سے متروک ہونے والے زبانون کا جائزہ لیا گیا ہے،جس کاپاکستان میں کم ازکم اُردو پر اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ پاکستان معاشی لحاظ سے ترقی کرنے والا ملک نہیں۔ ڈاکٹر تاتسویا امانو کا کہنا ہے ’کہ جب معیشت ترقی کرتی ہے تو ہوتا یہ ہے کہ صرف ایک زبان اُس قوم کی سیاست اور تعلیمی میدانوں
میں حاوی ہو جاتی ہے۔’یوں لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ یا تو حاوی ہوجانے والی زبان بولنا شروع کریں اوریا خود معاشی اور سیاسی لحاظ سے متروک ہوجائیں‘۔
اُردو ایک زمانے میں اُبھرتا ہوا اور ترقی کرتا ہوا زبا ن تھا لیکن موجودہ دور کے مطابق اُردو پر اِتنا کام نہیں ہوا ہے کہ یہ تعلیمی،معاشی،سیاسی اور ٹیکنالوجی پر حاوی ہوسکے اور کم ازکم دُنیا میں ایک متبادل زبان کا درجہ حاصل کرسکے۔اب اُردو کو اُس مقام تک لانے کا مشکل کام پاکستان میں 1979 کو قائم ہونے والا ادارہ ’نیشنل لینگویج اتھارٹی ‘ کو دیا گیا ہے کہ پاکستان میں اُردو کی ترقی کیلئے کام کرے جو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے!
شمیم ملک ،سینٹر آف گلوبل سٹیڈیز ورواک ، امریکہ میں ورلڈ لٹریچر پڑھاتا ہے ۔ اپنے ایک آرٹیکل Language debate میں لکھتے ہیں کہ’انڈین انگریزی سیکھنے میں پاکستان کے لوگوں سے بہت آگے ہیں جوکہ اُنہیں پورے دُنیا میں بہتر کام اور تعلیمی مواقع کے دروازے کھول چُکا ہے۔حقیقت میں،انگریزی آنیوالے سالوں میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کا اہم زبان ہونے والاہے،ِ اسی لئے انگریزی پر عبور قوم کو زیادہ مقابلے کے قابل بناتا ہے۔۔۔اور زبان پر دوہری پالیسی ملک میں طبقاتی تفریق اور صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے راہ میں رکاوٹ ہوجاتا ہے‘
پاکستان میں اُردو کو پروموٹ کرنے کے چکر میں ملک میں صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں دِقت ہوا تو قوم جو مسائل سے دوچار اب ہے مزید مسائل کو برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ہوسکتا۔ اور قوم کو جذباتی کرکے اور رہیٹوریسیزم(rhetoricism)سے مزید استحصال کرنا بند کیا جائے تو یہ قومی مفاد میں ہے۔ آئین پاکستان کے نہ صرف آرٹیکل 251 کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے بلکہ آرٹیکل 25 A اِس سے بھی زیا دہ اہمیت کا حامل ہے ۔تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جس کی توثیق آئین کے اِس آرٹیکل میں ہوتی ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال کے عمر کے بچون کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرے۔ پاکستان میں 25ملین بچے اب بھی سکول سے باہر ہیں اُن کو تعلیم کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ اور ایک اندازے کے مطابق 23 فیصد بچے دیہی علاقوں میں تعلیم سے محروم ہیں۔پاکستان میں اب ہربچے کو معیاری تعلیم دینے کی ضرورت ہے جو اِسے موجودہ دور میں مقابلے کیلئے تیار کرسکے نہ کہ صرف اپنا نام لکھنے کے قابل ہو۔
سرسید آحمد خان 19ویں صدی میں مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی تاکید کی تھی اور اِس مشن کے حصول کیلئے اُس نے علی گڑھ تحریک شروع کر دی۔نہ صرف علی گڑھ تحریک انگریزی تعلیم پر زور دی بلکہ اُردو کی ترقی میں اُس کا کردار قابل تحسین ہے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ اُردو کو جب اُس مقام تک لایا جائے کہ وہ دُنیامیں ایک متبادل زبان ہو تو یہ سرکاری اور بین الاقوامی زبان کا مقام خود حاصل کرسکتا ہے۔جتنا وقت پاکستان میں اُردو پر کام نہیں ہوا ہے ،اِتنا وقت اُس پر کام کی ضرورت ہے تب ہم اِسے ایک متبادل تعلیم اور ٹیکنالوجی کا زبان منوا سکیں گے اور اِسے متروک ہونے سے بچاسکیں گے ۔اور جس طرح تعلیم اور معاشی ترقی ملک کی بقا کیلئے ضروری ہے بالکل اِسی طرح مسلمانوں کی نمائندہ اور منفرد زبان اُردو کی عالمگیریت اُسکی بقا کیلئے ضرورت ہے۔لہذا حکومت کے لئے اُردو کی ترقی اُس کی politicisationسے زیادہ ناگزیر ہے، جو اُردو زبان کو سرکاری زبان دیکھنا چاہتے ہیں۔

Back to Conversion Tool

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button