دشت کربل…. اور پیام حسینؓ۔۔۔۔( تحریر؛ شہزادہ مبشرالملک)
* اقوال زرین۔
* حرص اور کثرت طلبی صرف بُری ہی نہیں مہلک بھی ہے۔
*بہترٰن مال وہ ہے جس سے عزت و آبرو کو محفوظ رکھا جائے۔
*اگر زمانہ تیرے ٹکڑے بھی اڑا دے تو تو لوگوں کی طرف مائل نہ ہو۔
*اگر جسموں کے لیے موت مقدر ہے تو انسانوں کا راہ خدا مرنا بہتر ہے۔
*اعلیٰٓ نسبی۔
یہ ارشادات و اقوال اس ہستی کے ہیں۔ جن کی قسمت پر ہمشہ دنیا رشک کرتی رہے گی…. جو خود سیدالشہدا اور جننت کے جوانوں کے سردار… باپ … کعبہ میں جنم لینے والے، رسول خداﷺ کے کندھے پہ چڑھ کر بُت گرانے والے اسداللہ ، خلیفتہ المسلمین، شہرعلوم ہدایت کے دروازے اور شہید مسجد … ماں…. جگر گوشہ رسولﷺ ، مسلمانوں کی سب سے بڑی اورعظیم محسن ماں حضرت خدیجہؓ کی آنکھوں کی ٹھنڈک… بھائی…. حضرت امام حسنؓ جیسے جلیل القدر مصلح صحابی رسول…. بہین… تاریخ انسانی پر انمٹ نقوش چھوڑنے والی اور یزید کے محلات پر لرزاں تاری کرنے والی بے باک شعلہ بیاں حضرت زینبؓ …. بیٹا… جسے دنیا امام زین العابدینؓ کے گرامی سے پکارتا ہے…. دادا… حضرت ابو طالب جس نے پوری زندگی …چراغ ہدایت..کی نگہبانی کی اور جس کی وفات کو آپﷺ نے غم کا سال قرار دیا… نانی … حضرت خدیجہؓ … جس نے سب سے پہلے نبوت کی تصدیق کی اور اپنی ساری مال و متاع دین اسلام کی ابیاری کیلیے لوٹا دی….. اور …. نانا… وہ جس کے لیے یہ دنیا سجائی گئی ، جس کے دم سے یہ کارخانہ حیات قائم و دائم ہے ، جو محسن انسانیت، اور رحمت اللعلمین ہیں۔
ولادت سے جوانی۔
۴ ھ مدینہ منورہ میں پیدا ہوے حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ اور حضور ﷺ کی گود میں پرورش پائی…. آپ ﷺ نے …. حسینؓ نام رکھا اور فرمایا ’’ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ ائے اللہ جو حسین کو دوست رکھتا ہے تُوبھی اسے دوست رکھ کیونکہ حسینؓ مرے بیٹوں میں سے ایک بیٹا ہے ۔‘‘حضور انہیں اپنے مبارک کندوں پر سورا کرتے ہوے گھر سے نکلے تو ایک صحابی نے حیرت سے کہا کیا مبارک سواری ہے ؟ تو حضورﷺ نے فوراٰٰ فرمایا سوار بھی بہت ہی مبارک ہے….ایک دن حضورﷺ نے حسن سے کہا کہ وہ حسین کو پکڑے اور کشتی لڑے …. اور حضرت حسنؓ سے کہا کہ حسینؓ کو پکڑے حضرت فاطمہؓ بولیں یا رسولﷺ آپ بڑے کو کہتے ہیں کہ چھوٹے کو پکڑلے؟ حضور ﷺ نے فرمایا حضرت جبرائیل ؑ بھی تو حسینؓ سے کہہ رہے ہیں کہ حسنؓ کو پکڑ۔ ایک دن آپﷺ حضرت حسینؓ کو دائیں اور اپنے بیٹے حضرت ابراہیمؑ کو بائیں بازو پر بیٹھائے ہوے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور کہا اللہ تعالٰی ان دونوں کوآپ کے پاس یکجا نہ رہنے دے گا… آپ جسے چایہں پسند کرلیں….
آپﷺ نے فرمایا اگر حسینؓ رخصت ہوجائیں تو ان کے فراق میں حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ اور مجھے دکھ ہوگا اور ابراہیمؓ کے جانے کا صرف مجھے صدمہ ملے گا اس لیے مجھے اپنا غم ہی پسند ہے۔ حضرت حسین ابھی سات سال کے ہوے تھے کہ آپ ﷺ اس جہان فانی سے رخصت فرماگئے چھ ماٰں بعد حضرت فاطمہؑ جیسی شقیق ترین ماں سے بھی محرم ہوگئے. .. لیکن علی مرتضیٰؓ جسے مشفق والد نے آپ کی پرورش احسن طریقے سے کی…. آپ حافظ قران، احادیث نبوی اور قران پر زبردست عبور رکھتے تھے ۔.دور صدیقی اور فاروقی میں آپ نوخیز تھے…..خلافت فاروقی میں کسی بات پر عبداللہ ابن عمرؓ کو غصے سے اپنا غلام کہا… تو عبداللہ برا مانا گئے اور اپنے والد امیرالمومنین فاروق اعظمؓ سے شکایت کی کہ حضرت حسینؓ مجے طعنہ دیا ہے …. باب نے بیٹے سے کہا واقعی حسینؓ نے یہ کہا ہے کہ تم اس کے نانا کے غلام کے بیٹے ہو…. فورا جاو اور یہ بات لکھ کر لاوحضرت حسینؓ نے لکھ کر دی تو حضرت عمرؓ نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد یہ پرچی میرے کفن کے ساتھ لپیٹ دینا تاکہ میرے لیے حسینؓ کی طرف سے سند بن جاے کہ میں ان کے نانا ﷺ کا غلام ہوں…. دور عثمانی میں جوان ہوے اور کئی جنگوں میں حصہ لیا… جب حضرت عثمانؓ کے غلاف فسادیوں نے حملہ کیا تو حسنینؓ در عثمانی کی حٖفاظت پر مامور تھے…دور حیدری میں اپنے والد کے ہمیشہ دست بازو رہے…. حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بعیت کی جب چھ ماہ بعد حضرت حسنؓ نے ملت اسلامیہ کو متحد رکھنے کیلیے حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دست بردار ہوئے تو آپ نہ چاہتے ہوئے تھی بڑے بھائی کے رائے کا احترام کیا.جب حضرت امیر معاویہؓ اپنے بیٹے یزید کے لیے اپنی زندگی ہی میں بزور بعیت لینے کا اغاز کیا تو آپ نے کہا امیرؓ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کرکے …. خلافت کو ملوکیت کی جانب ایک قدم اگے برھایا تھا اب بیٹے کو ولی عہد بنا کر …. خلافت… کو ہرقل کی شہنشاہی بنارہا ہے۔۔۔آپ کے ہم آواز ہوکے دینی بصرت رکھنے والے چند حق گو سامنے آئے اور برملا حضرت امیر معاویہؓ کے فیصلے کی مخالفت کی….ادھر معاویہؓ بزور تلوار بعیت لینے کے احکامات دیے اور یزید کے ولی عہدی کا اعلان کردیا…. لیکن اپنے منصوبے کو عملی جامعہ نہ پہنائے تھے کہ اچانک انتقال پا گئے….یزید نے تخت خلافت پر بیھٹتے ہی …. حضرت حسینؓ اور حضرت زبیرؓ سے زبردستی بعیت لینے یا قتل کرنے کے احکامات جاری کیے یہ دو نوں حضرت اپنا پیچھا چھڑا کر مدینہ سے مکہ پہنچ گئے۔
*عاشور کی چاندنی۔
ایام حج تھے مگر حضرت حسینؓ کے پیچھے یزیدی غنڈے یہاں بھی آپ کی جاسوسی کرنے لگے تو آپ نے حج کو عمرے سے بدل دیا اور سوے مقتل یعنی عراق جانے کا فیصلہ کیا …عراق سے سییکڑوں خطوط موصول ہوچکے تھے اور آپ کا نمائیدہ حضرت ابن عقیلؓ کا بھی کوفہ آنے اور حالات بہتر ہونے کا مشورہ مل چکا تھا…. مخلص صحابہ کرام نے عراقیوں پر شک و شبے کا اظہار کیا کچھ نے یمن اور مدینہ واپس جانے کے مشورے دیے…. کوفیوں کی بے وفائی اور غداری کا حوالہ دیے مگر امام حسینؓ سب باتوں کے جواب میں فرمایا ’’حضورﷺ نے مجھے ایک بات کا حکم دیا ہے اور میں جان لوٹا کے بھی اسے ضرور پورا کرونگا۔‘‘ عراق میں داخل ہوے تو … مسلم بن عقیلؓ کے قتل اور کوفیوں کی تلواریں یزید کے ساتھ ہونے کی دلخراش خبریں موصول ہوئیں ادھر عبداللہ ابن زیاد کی فوج نے آپؓ کو گھیر لیا اور رفتہ رفتہ وہ مقام اگیا جسے … کربلا… کے نام سے جاتا ہے …
یہاں انسانی تاریخ کا وہ درد ناک باب رقم کیا گیا کہ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آج بھی آنکھیں بھیک جاتی ہیں….اگرچہ محرم کو اور بھی بہت سے حوالوں سے عزت و منزلت حاصل ہے مگر10 محرم شب عاشور کی چاندنی …. فقط اور فقط …. قربائی حسینؓ کے دم سے ہی ہے…. اور حسینؓ اپنا سب کچھ لوٹا کے ….. مسلمانوں ہی کے نہیں پورے عالم انسانیت کے … ہیرو… بن گئے۔
* خاک کربلا۔
حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں.’’ ایک رات حضور ﷺ گھر سے باہر گئے اور بڑی دیر بعد تشریف لائے… آپ ﷺ کے بال پریشان اور غبار الود تھے…. میں نے پوچھا آپ کو یہ کس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا آج حضرت جبرائیل مجھے ایک اسی جگہ لے گئے جو …. عراق… میں ہے اور …. حضرت حسینؓ … کی جائے شہادت ہے اور اسے …کربلا … کہتے ہیں جہاں میں اپنی اولاد کا مشاہدہ کیا اور ان کے… خون … کو زمین سے اٹھالیا جو میرے ہاتھ میں ہے…. حضور ﷺ نے مٹھی کھولی اور فرمایا اسے پکڑ اور حفاظت سے رکھ…. میں نے اس …. سرخ… مٹھی کو ایک …. بوتل …. میں رکھ لیا.جب حضرت حسینؓ عراق کا سفر کیا تو میں روز اس … شیشی… کو باہر لاکر دیکھتی رہی اس میں مٹھی اسی طرح موجود تھی …. جب میں نے …. عاشور…. کے روز اسے دیکھا تو اس میں …. خون … تازہ ہوچکا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ حسینؓ شہید ہوگئے….
* پیام کربلا۔
*حضرت امام حسینؓ پوری دنیا کے مظلوموں کو یہ پیام دے گئے کہ کہ حق کے لے اپنا سب کچھ لوٹا دینا …. ناکامی نہیں بلکہ دائیمی کامیابی ہے …اج حسین کے چاہنے والے مسلمان ہی نہیں غیر مذاہیب بھی کڑوروں کی تعداد میں ہیں اور یذید کا کوئی نام لیوا نہیں۔
* اس وقت علماء سو یزید کو خوش کرنے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے حسینؓ کو باغی بناکے پیش کررہے تھے …. اور علماء حق بھی یزیدی تلوار کے خوف سے کھل کر امام کا ساتھ نہ دے سکے….. اور اج کے حالات بھی وہی ہیں۔ لیکن فریق بدل گئے ہیں ….. جہاد کے نام پر ایک فساد بریا ہے اور خوف کے سائے ہیں …. اہل علم ۔ صاحبان عقل شعور…. کھل کر ریاست اور فوج کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں اور علماء سو دہشت گردوں کے لیے راستے بناتے جارہے ہیں۔
* خود حضرت امام کا عمل بھی…. اسلام اور جہاد کے دعوٰیدوروں کے لیے بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاد کی شرایط اور حدود کیا کیا ہیں کہ کیا اج کے جہادی حسینؓ کے قافلے کے ساتھی ہیں یا چنگیزو ہلاکو خان کے متوالے…. کہ ان کے ہاتھوں سے لوگوں کی عزت ناموس، عبادت خانے ، بازار ، بچے بوڑھے ، مرد خواتین کوئی بھی محفوظ نہیں …. یہ یم سب کے لیے ….. لمحہ فکریہ ہے خصوصا ….. علماء کرام کے لے کہ وہ آگے اکے …. رسم شبیری ادا کریں۔
*منقبت۔ حسینؓ
تت شاہ ریما تت سید ریم تو بادشاہ حسینؓ
تت دین ریما تت دنیا ریم دین پناہ حسینؓ
تو غیرتا علیؓ تان اشوو صبرا فاطمہؓ
خدایو خوشوِﷺ خوش تہ غونہ ہوئی وا کا حسینؓ
حقو ہوازو بلند ارو ای ہس وحتہ تو
ظلموتے ظلم ریک دی اوشوئی تھے خطا حسینؓ
یہ دنیا کوس بچین کی ساوز تو اژیلیان سوم
برپا بیتی شیر کو کربلا ؟ تماشا حسینؓ
تو ہر ہردیا زندہ بہچوس تا با قیامت
تو ہر انسانو ہردیو نس دل ربا حسینؓ
کو س کی امانت ژان یہ اوشوئی اچی تو تے پراو
حقو تہ غونا کا کوریتائی وا ادا حسینؓ
تہ شہرو غلامی دریغا کی نصیب بوئی
ائے کاش مبشرؔ تو کی بیسو خاک پا حسینؓ