امت مسلمہ ایک عجیب دوراہے پر ہے۔ ہر طرف خونِ مسلماں ارزاں ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین، مصر ہو یا عراق، شام ہو یا لبنان، افغانستان ہو یابرما ہر طرف مسلمان تہہ و تیغ ہو رہے ہیں۔ پوری مسلم دنیا اپنے اپنے بلاک بنائے بیٹھی ہے اور کفار اس تفریق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی راستہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ آج یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے گریباں چاک کیے ہوئے ہیں۔ جس امت کی مثال بند مٹھی کی سی تھی وہ الگ الگ رخ پہ اپنا قبلہ سنوارنے کی بے سود کوششیں کر رہی ہے۔ نہ تو ملکوں کی سطح پہ اتفاق ہے نہ ہی انفرادی سطح پر۔ جس امت کا نعرہ ہی اتحاد تھا وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پہ تیار نہیں ہے۔ مساجد پہ لیبل لگانا فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ فلاں مسجد میں ناف پہ ہاتھ باندھنے والے نماز پڑھیں گے تو فلاں مسجد میں سینے پہ ہاتھ باندھنے والے، اس مسجد میں ہاتھ کھول کر نماز پڑھیں گے تو اُس مسجد میں ہاتھ پیٹ پہ باندھنے والے۔ غر ضیکہ کہ اللہ کے گھر میں بھی تفریق پیدا کر دی گئی ہے۔ اس میں کس کا فائدہ ہو رہا ہے اور کس کا نقصان؟
جوتے خون سے بھر جائیں، لہو لہان ہو جائیں، پتھر برسانے والوں پہ پہاڑ الٹ دینے کا کہہ دیا جائے۔لیکن ہدایت کی دعا کی جائے۔محبوب خدا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا صبر و برداشت کا عملی مظاہرہ۔ اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟عدم برداشت ہماری رگوں تک میں سرایت کر چکی ہے۔ برداشت کا جو عملی سبق آقائے دو جہاں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے دیا اس کی تکمیل نواسہ ء رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے کربلا کے میدا ن میں کردی ۔ لیکن ہم بطور اُمت پھر بھی اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
امام عالی مقام علیہ السلام نے علی اکبر ؑ جیسے جوان بیٹے کو قربان کرتے ہوئے ہرگز کسی بھی جگہ یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ یہ قربانی کسی سُنی ، شیعہ، دیوبندی، وہابی یا اہلحدیث کے لیے ہے ۔ بلکہ دین اسلام کی بقاء اس قربانی کی وجہ بنی۔ قاسمؑ کی لاش ٹکڑوں میں بٹ گئی تو اس قربانی کا ہرگز بھی مقصد کسی مخصوص فرقے کی ترویج نہیں تھا۔آخر کربلا ہے کیا؟ کربلا میں آل نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے آخر یہ عظیم قربانی کیوں دی ؟ کربلابرداشت و صبر کا ایک ایسا عملی نمونہ ہے جو ہماری عملی زندگیوں کا حصہ بن جائے تو ہر طرح کے مسائل سے چھٹکارا مل جائے۔ لیکن ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔ سبق تو یہ کہ۔۔
خون سے سینچا ہے اسلام کو آلِ نبی ﷺنے
اس کی حُرمت کو حشر تک تم سنبھالے رکھنا
سیدہؑ کے لال نے برداشت کا وہ نمونہ پیش کیا جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ ایک لمحہ سوچیے جن کے گھر میں قرآن اُترا ہو۔ دوشِ نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے سوار ہوں۔ وہ حج صرف اس وجہ سے چھوڑ دیں کہ امن کی جگہ پہ خون خرابہ نہ ہو۔ تو پھر ہم کون ہوتے ہیں باہمی اختلافات پہ ایک دوسرے پہ فتوے لگانے والے۔ احرام بندھے ہیں۔ نظرِ امامؑ نے دیکھا کہ کعبۃ اللہ میں خون بہے گا ۔ حکم دیا احرام کھول دیے جائیں۔ جناب عباس علیہ السلام نے دریافت کیا تو جناب حسین علیہ السلام نے وجہ بتائی کہ400 افراد میرے قتل کے ارادے سے حاجیوں کے لباس میں موجود ہیں۔ عباس علمدارؑ جیسے جری جس کے لیے 4000 کو قابو کرنا بھی مشکل نہ ہو، اُس جری کو جنگ سے روک کرحج کو عمرے میں تبدیل کر کے جناب حسین علیہ السلام نے جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ ہم اپنا لیں تو پوری امت مسلمہ امن کا گہوارہ بن جائے۔ کیا اس موقع پر بھی تاریخ کوئی ایسا لفظ نواسہ رسولﷺ کے ہونٹوں پہ ثابت کر پائی جس سے صبر و استقامت میں لرزش ظاہر ہو؟ جناب امیر مسلم بن عقیل ؑ کو بمعہ فرزندان کے شہید کر دینے کی خبر ملی تو کیا حسین ابن علی علیہ السلام کے پایہ استقلال میں ہلکی سی بھی لرزش آئی ؟ کیا چاہتے تو واپس نہیں لوٹ سکتے تھے؟ لیکن دین کی بقاء مقدم تھی ۔ صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ ہمارا دشمن ہمیں آپس میں لڑا کر خود فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ ہم آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔
اس سے بڑھ کر صبر و برداشت کا عملی نمونہ کیا ہو گا کہ 2 محرم الحرام جب بیابانِ کربلا میں خیمہ زن ہوئے تو دشمن کے جانوروں تک کو پانی سے محروم نہیں رکھا ۔ یہی تو وہ عملی کردار تھا جس سے حُر ؑ جیسا سپہ سالار بھی متاثر ہوئے بناء نہ رہ سکا اور دائمی بقاء پا گیا۔ 7محرم الحرام کو پانی اہلبیتؑ پہ بند کر دیا گیا۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں ، دوشِ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے سوار جن کی سواری کی وجہ سے اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم سجدہ طویل کر دیں ، صحرا کی تپتی زمین پہ ، پیاس سے خشک گلے ۔ لیکن صبر کی انتہا۔۔۔ الاماں۔۔۔ برداشت کا مطلب امت کو بتاتے ہوئے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم برداشت کو چھوڑ بیٹھے ہیں؟ آخر ہم کیوں خون بہا رہے ہیں؟ ہم یہ کس سمت جارہے ہیں؟ آخر کیوں ہم نے قربانیء اسماعیل ؑ کی کربلا میں تکمیل کے سبق کو بھلا دیا ہے۔
ارض و سماء دنگ رہے کربلا میں عباسؔ
قربانیء اسماعیل کی تکمیل کو سجائے رکھنا
عددی طور پہ ایک جانثارانِ حسین علیہ السلام کا مقابلہ کم و بیش 12ہزار طاغوتیوں سے تھا۔ لیکن مجال ہے کہ برداشت و صبر میں لحظہ کے لیے بھی لرزش آئی ہو۔ جب امام عالی مقام علیہ السلام نے چراغ گل کروا دیے اور اپنے اصحاب کو اجازت دی کہ کوئی ان میں سے جانا چاہے تو چلا جائے اور ساتھ ہی جنت کی بشارت بھی دی کہ میں چھوڑ کر جانے والوں کی جنت کا بھی ضامن ہوں۔ لیکن حیران ہوں ان اصحاب کے حوصلے پہ بھی ۔ اور جناب مسلمؓ ابن عوسجہ کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے کہ "یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ آپ علیہ السلام کو چھوڑ دیں۔ میں اپنے نیزے کو دشمنوں کے سینوں میں توڑ دوں گا۔ اور آپ علیہ السلام کے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دوں گا”۔
کیا صبر و برداشت کے اس عظیم مظاہرے کے بعد بھی ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کربلا کیا ہے؟ کربلا اگر صبر و برداشت کی عملی درسگاہ نہیں تو پھر کیا ہے کربلا؟ اگر کربلا کا درس اتحاد و یگانگت نہیں ہے تو پھر کیا ہے کربلا؟ عباسؑ جیسے مثلِ حیدرؑ کو اگر جنگ کی اجازت مل جاتی تو نقشہ تبدیل ہو جاتا۔ لیکن صبر کی انتہا کر دینے والے نواسہ ء رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم نے کربلا کو برداشت کا پیغام دینے کا ذریعہ نہیں بنایا تو اور کیا ہے کربلا؟ علی اکبر ؑ و قاسم،جناب عون ؑ و محمدؑ ، اصغرؑ و عباسؑ غرضیکہ کہ خاندان زہراؑ کی قربانی دے دینے سے اگر یہ سبق دینا مقصور نہیں کہ اسلام کی بقاء خاندانِ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم سے بھی اہم ہے تو پھر کربلا کیا ہے؟
کربلا صرف صبر و برداشت کا ایسا عملی نمونہ ہے۔ جو نہ صرف ہماری انفرادی زندگیوں میں انقلاب لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے مسائل سے چھٹکارے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔دشمن پوری دنیا میں ہمیں سُنی ، شیعہ ، دیوبندی، وہابی ، اہلحدیث یا کسی بھی دوسرے مکتبہء فکر کی بنیاد پر ظلم کا نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ صرف مسلمان گردان کر ہمیں برباد کر رہا ہے۔ باہمی اختلافات میں باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے صبر و برداشت کو عملی زندگی کا حصہ بنانے سے ہی ہمارا دشمن ناکام ہو گا۔ ورنہ ہم نقصان اٹھاتے رہیں گے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے گڑھا کھودتے رہیں گے۔