بعض لوگ عجیب ہوتے ہیں۔ ہاں بہت عجیب ہوتے ہیں وہ عام لو گوں سے ’’ عجیب ‘‘ لوگ اپنی دنیا خو د بناتے ہیں ہر ایک ان کی دنیا میں داخل ہوناچاہتا ہے مگر داخل نہیں ہوسکتا 1954 کے فروری کا مہینہ تھا ایک بچہ ننھیال میںآنکھیں کھولا۔ چاند سا بچہ ’’ عجیب ‘‘ تھا انھوں نے تقدیر سے تحفے میں ’’ حسن وجمال ‘‘ کے علاوہ ’’ ذھن وشعور ‘‘ کی عظیم دولت لے کے آیاتھا۔ بچپن ہی میں پیاری ماں اللہ کو پیاری ہوگئی محبت کا سمندر خشک ہوگیا لیکن اس کی محبت کی پیاس شفیق باپ اور چچا نے بجھائی۔ یہ بچہ ایک معروف خاندان کا چشم و چراغ تھا خوشحال گھرانہ تھا باپ میر وزیر خان اور چچا شیر وزیر خان اپنے زمانے کے نمایاں شخصیات ہے ریاستی حکمرانوں کے دربار میں رسوخ تھا علاقے میں نام تھا اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نمایاں تھے گھر میں نوکر چاکراور خوشحالی تھی۔ وہ گاؤں کے سکول میں داخل کرادیاگیا انھوں نے پرائمری تک اپنے اساتذہ مصطفےٰ کمال مرحوم اور بزرگ استاذ مرحوم سے پڑھا سلطان وزیرخان اپنے آبائی گاؤں اُجنو کے پرائمری سکول سے فارغ ہوکر ہائی سکول شاگرام سے 1974 میں میٹرک نمایاں پوزیشن میں پا س کیا اور پورے ضلع میں تیسری پوزیشن حاصل کی 1976 میں ڈگری کالج چترال کے ایف اے اور پورے ضلع میں اول آئے 1978 میں بی اے کیا پورے ضلع میں اول آئے کالج کے زمانے میں نمایاں طالب علم رہے ۔اسلامی جمعیت طلباء کے ہوسٹل کے ناظم رہے ۔فٹ بال کے کھیلاڑی رہے ۔ادبی سرگرمیوں میں بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے خود شعر اور نثر لکھتے رہے اور اس کی صلا حیتیں نکھرتی گئیں 1987 میں پشاور یونیورسٹی سے سیاسات میں ایم اے کیا 1982 میں بطور لکچر ر ڈگری کالج چترا ل میں تعناتی ہوئی یونیورسٹی میں یونیورسٹی فٹ بال ٹیم کے ممبر رہے رسالہ تریچمیر کے حصہ اردو کے ایڈیٹر رہے رسالے میںآپ کے مضامیں شائع ہوئے آپ مختلف سو سائیٹوں کے ممبر رہے 1984 میںآپ نے سی ایس ایس کیا ور انکم ٹیکس افیسر کے طور پر پشاور میں کام آغاز کیا دوران ملازمت بھی آپ نے پڑھائی کا شوق جاری رکھا 1995 میں فرنیٹر کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا ۔پھر خانہ فرنہگ پشاور سے فارسی میں ڈپلومہ کیا 2005 میں کراچی میں تعنیاتی کے دوران ایس ایم لا کالج سے ایل ایل ایم کیا لمس لاہور سے این ایس پی پی اور ایس ایس ایم کو رسس کئے۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے انکم ٹیکس کمشنر کراچی میں خدمات انجام ی 2014 میں سروس سے ریٹائر ہوئے آپ دوران ملازمت ایک مثالی آفیسر رہے کبھی اپنے عہد ے کو اپنی شخصیت اور نجی زندگی پر اثر انداز ہونے نہ دیا ۔کبھی اپنے دفتر کے چپڑاسی سے اپنا ذاتی کام اپنے گھر کے کام نہیں کرائے ایک اعلیٰ افیسر کے طور پر زندگی مگر روایات کے دامن میں گذاری گھر میں خاتون خانہ کبھی ،بیگم صاحبہ ‘‘ نہیں بنی وہ روایتی چترالی خاتون رہی ۔ اپنا باور چی خانہ اپنے بچوں کی پرورش اور اپنے مہمانوں کی خدمت سنبھالتی رہی ۔آپ کے گھر میں کوئی ماما، دایہ ،نوکر چاکر نہیں رہا ۔جو آپ کے گھر آیاوہ آپ کے گھر کو ، آپ کے بچوں کو ،اور آپ کی روایتی شخصیت اور گھر کو روایتی گھر پایا ۔آپ کی آنکھوں میں چمک ، چہرے پر شادمانی اور ہونٹوں پر تبسم رہا ۔آپ کا نانا غریبوں سے کبھی نہیں ٹوٹا ۔انہوں نے خاندان سے اپنے آپ کو جدا نہیں رکھا ۔گاؤں والوں کی غم خوشی میں شریک رہا ۔آپ کادستر خوان وسیع رہا۔ آپ کی مٹھی بند نہیں رہی فلاحی کام غریبو ں کی غربت کے سامان ، ضرورت مندوں کی ضروریات اور مجبوروں کی مجبوریاں کسی حد تک ان کے ہاں پوری ہوتیں وہ پشاور اور کراچی میں رہتے ہوئے مختلف ادبی اور ثقافتی محفلوں کی زینت بنتے رہے طلباء تنظیموں کی رنمانت اور حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔آپ خود چترالی ستار بجاتے ہیں اور موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان کو چترال کی لوک روایات ’’ موسیقی ‘‘ زبان اور رسوم ورواج پر دسترس حاصل ہے ۔آپ شستہ اوڑ لکسالی کھوار بولتے ہیں ۔زبان میں ملاوٹ کے سخت مخالف ہیں وہ شرین لہجہ اور شگفتہ دہن ہیں انہیں جھوٹ سے سخت نفرت ہے ۔آپ نے چوچھنے پر اعتماد سے کہا کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔آپ روایتی لباس اور کھانوں کے دلدادہ ہیں ۔مگر لباس پر قدغن کے مخالف ہیں۔ہر قسم کے لباس پہنتے ہیں ،شکار کھیلتے رہے ہیں یہ ان کاخاندانی روایتی مشغلہ رہا ہے آپ چھر یر ا بدن اور تنومند ہیں ۔خوشی خوراک ضرور ہیں مگر بسیار خوری سے نفرت ہے اس لئے بدن ڈھلتی عمر کے ساتھ بھی صر و صنو بر ہے ۔اللہ نے بچے ذہین ترین دئیے۔اعتراف ہے کہ آپ کو بھی اپنے بچوں کی پڑھائی کی فکر نہیں ہوئی ۔خود پڑھے اور بہت پڑھے ۔بڑی بیٹی ناہیدہ ملیشیا ء سے اسلامک لا میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں ۔بیٹا نوید ایل ایل بی کر نے کے بعد سی اے کر کے بہت اعلیٰ جاب کر رہے ہیں ۔بیٹی سارہ فن تعمیر کے اعلیٰ ڈگری ہولڈر ہیں ۔بیٹا فہد کراچی سے ایل ایل بی کیا اور لنکز ان یونیورسٹی لندن سے یار اپ لا کر رہے ہیں ۔سرمہ موجود آسٹریلیا سے تعلیم حاصل کررہے ہیں اس عالمی خانوادے کے یہ سارے تارے علم کے جویا ہیں اور آکاش علم کے ستارے ہیں۔ لیکن سب سے بہترین تعلیم جوان کو دی گئی ہے وہ ’’مثالی چترالی‘‘ ہونے کی تعلیم ہے ۔ ان کی نشست وبرخواست اور باتوں سے اصل چترالیت ٹپکتی ہے ۔اس لئے کہ یہ گھر تہذیب کی اکیڈیمی ہے سلطان وزیرصاحب کا چہر ہ روشن رہتا ہے ۔آپ مرنجان مرنج ہیں اس لئے نہ غم اپنے قریب پھٹکنے دیتے ہیں نہ دوسرے کومغموم دیکھ سکتے ہیں ۔اس کی مسکراہٹ اس کی سوغات ہے اس ڈگری اور اس کا عہد ہیں ۔دوران ملازمت آپ کوپروموشن کا کبھی آپ کے بچوں کوپتہ نہیں چلا نہ پتہ چلا کہ آپ کس مقام کس عہد ے پر ہیں ۔گاڑیاں بدلتیں ،گھر بدلتے تب پتہ چلتا کہ کچھ ہوا ہے ۔آپ کے بچوں نے کبھی یہ احساس نہیں کیا کہ وہ اتنے بڑے افیسر کے بچے ہیں ۔ایسے بڑے لوگوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے وہ اس اس میں تنہا رہتے ہیں ۔مگر سلطان وزیرصاحب سب سے افسر دہ چیزوں سے افسردگی کی گرد دھل جاتی ہے ۔انہوں نے زندگی کو انجائی کیا انہوں نے بہت سے فلاحی کام اپنی خوشحا ل زندگی کے صدقے کئے آبائی پسماند ہ گاؤں کی ترقی کے لئے کوشان رہے ۔آپ کو کراچی کے علاوہ اپنے گاؤں اور پشاور میں رہنا پسند ہے ۔وہ ان تینوں جگہوں سے بہت محبت کرتا ہے ۔ ان کو اس ملک سے اس سرزمین سے محبت ہے ۔انہوں نے اس کی بہت تن دھہی اور خلوص سے خدمت کی ہے عہد ے کو اور اختیارات کو امانت سمجھا ہے اور پاک سرزمین کی ترقی کو منزل سمجھتا رہا ہے ۔ا ن کا بڑا نام ہے اس لئے علاقے کی پہچا ن ہے ۔سرزمین چترال کے ایسے عظیم فرزند وں کو ’’ پھو ل ‘‘ کہنا ایک بانکے لکھاری کا جذبہ ہے واقعی یہ چترال کے ’’ پھول ‘‘ ہیں۔