یہ سچ کہنے میں مجھے قطعاًعجیب نہیں لگ رہا ہے کہ ’’بے لوث محبت‘‘ صرف ماں کا خاصہ ہے۔ ورنہ تو اللہ بھی اپنی مخلوقات سے بے لوث محبت نہیں کرتے۔ اگر وہ بے لوث محبت کرتے تو کافروں کے لئے عذاب الیم اور نافرمانوں کے لیے سخت وعیدیں کیوں نازل فرماتے۔ہم سب جانتے ہیں کہ محبت کی کئی اقسام ہیں۔ مال و دولت سے محبت، اپنے آپ سے محبت، حسن و جمال سے محبت، بیوی سے محبت اور بیوی کی محبت۔علماء کرام برا نہ مانیں تو عرض کروں کہ اللہ سے محبت اور اللہ کی محبت بھی۔ غرض ہر قسم کی محبت میں کوئی نہ کوئی غرض ولالچ ضرور شامل ہے۔واللہ العظیم! اگر کوئی بے لوث، ہر قسم کے اغراض سے پاک، تمام آلائشوں سے صاف، تمام کثافتوں سے طاہر محبت ہے تو وہ صرف اور صرف ماں کی محبت ہے۔ماں کی عظمت کے حوالے سے قرآن میں ’’ وبالوالدین احسانا ‘‘ہزاروں بار پڑھا۔’’ولاتقل لہما اُف وقل لہما قولا کریما ‘‘یعنی والدین کے ساتھ اچھا برتاو کرو،اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کی منزل پر پہنچ جائیں تو انہیں "اُف” تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے مہربانی سے بات کرو۔ ’’الجنۃ تحت اقدام امہاتکم ‘‘کی توضیحات کو سینکڑوں بار پڑھا اور اتنی ہی بار سننے والوں کو سنایا۔عظمتِ ماں پر مسلم و غیر مسلم مفکرین و دانشور وں کی تحقیقات و تدقیقات اور اُدباء و فلسفیوں کی نثرنگاریاں اور علمی موشگافیاں بار بار پڑھنے اور سلجھانے کو ملی۔ماں کی عظمت کااس سے بڑاثبوت کیا ہوگا کہ اللہ کریم جب انسان سے محبت کادعوی کرتاہے تواس کے لیے محبت کی مثال ماں کوبناتاہے اور کہتاہے کہ میں انسان کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت کرتاہوں۔ یعنی بے پناہ محبت کرتاہوں۔اللہ کے اس فرمان میں شک و شبہ کی نہ گنجائش ہے نہ کوئی مسلمان اس کی جسارت کرسکتا ہے۔
ہزاروں نیک صفات سینکڑوں مجاہدات ا ور سخت ریاضات کی خوشبوؤں سے ماں کا خمیر تیار ہوتا ہے اور جب ماں زمین پر قدم رکھتی ہے تو اسی زمین کے تلے اولاد کو جنت مل جاتی ہے۔ یہ قطعا قید نہیں کہ وہ ماں نیک اور پارسا ہو۔ بلکہ صرف ایک ہی شرط ہے کہ وہ ماں ہو۔بے شک وہ زانیہ و شرابیہ ہو۔ بے شک و کافرہ و مرتدہ ہو مگر ماں ہو ماں ہو۔ اگر وہ اپنے ناپاک قدم کہیں رکھ دے توزمین کا وہ ٹکڑا اولاد کے لیے باغ بہشت بن جاتا ہے۔
بے شک… ماں کی عظمت آسمان کی عظمت و رفعت سے بڑھ کر ہے۔
بے شک…ماں کی روشنی و اجالا کے سامنے زہرہ، مریخ اور ثاقب کی روشنی پھیکی پڑ جاتی ہے۔
بے شک…ماں کا دل سمندر سے زیادہ گہرا اور ہمالیہ و کے ٹو سے زیادہ اونچا ہے۔
بے شک…ماں کی دھوپ میں تپش و تمازت نہیں۔
بے شک… ماں کی روشنی میں ممتا کی کلیاں مسکراتی ہیں۔
بے شک…ماں کے میلے پاؤں تلے جنت کے پھول اُگتے ہیں۔
بے شک…ماں ایک ایسا تابندہ تارہ ہے جو ظلمات میں روشنی کا کام دیتا ہے۔
بے شک…ماں کی نظر کرم اَبرِ رحمت کے خوشگوار جھونکوں سے لاکھوں درجہ فرحتوں کا باعث ہے۔
بے شک…ماں کی خوشبو سے پوری دھرتی معطر ہوجاتی ہے۔
لاریب کہ… ماں عطیہ خدا وندی ہے ۔ شاید سب سے بڑا عطیہ۔
بے شک…مگراس سب کچھ کے باوجود مجھے ماں کی عظمت اور وقار درست طور پر سمجھ ہی نہیں آیا۔
میری والدہ گزشتہ تین سال سے سخت علیل ہیں۔ انہیںParkinsonism ہے۔ یہ فالج کی طرح ایک مرض ہے جو انسان کوبستر کا بناکر رکھ دیتی ہے۔اس مرض نے میری والدہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ہے۔میں نے حتی المقدور علاج معالجہ کروایا ہے مگر مرض بڑھتا جاتا ہے۔ آفاقہ کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ دیسی و طبیبی اور ڈاکٹری علاج میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ والدہ کی اطمینان کے لیے تعویذ گنڈوں کا بھی خوب سہارا لیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق والدہ محترمہ کی خدمت بھی خوب کرتا ہوں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرے احباب و رشتہ دار مجھے اکساتے رہتے ہیں کہ آپ نے والدہ کی خدمت کا حق ادا کردیا ہے اور میں بھی اسی گھمنڈ میں رہا مگر یہ سب کچھ اس وقت کافور ہوا جب میرے دو معصوم بچوں نے میری وائف کا جینا حرام کردیا۔اللہ تعالیٰ نے ایک سال میں بالترتیب دو بیٹو ں سے نوازا۔بڑا بیٹا چھوٹے سے ایک سال چار دن کا بڑا ہے۔ دونوں ماں کا دودھ پیتے ہیں اور رات بھر کبھی ایک ساتھ اور کبھی باری باری سے جاگتے ہیں۔ روتے ہیں بلکہ اودھم مچاتے ہیں۔اس پر مستزاد بیماری کی حالت میں جاگتے ہیں کھانستے ہیں اور چلاتے ہیں۔میں اپنی وائف کا کچھ بھی مدد نہیں کرتا۔ مجھے صرف نیند میں ڈسٹربینس ہوجاتی ہے جس پرسخت غصہ آجاتا ہے مگر میری بیوی ان دونوں کو سنبھالتی ہے۔دودھ کی شکل میں خون جگر پلاتی ہے۔ایک کو گود میں لیتی ہے دوسرے کو پیٹھ پر اٹھا کرچادر سے باندھ دیتی ہے۔ لوری سناتی ہے۔ ان کے کانوں میں’’ اللہ ہو‘‘ کا ورد کرتی ہے۔دونوں کو ساتھ دودھ پلاتی ہے۔مجال ہے کبھی ان کے لیے کوئی نازیبا لفظ کہا ہو۔دسیوں دفعہ میں نیند سے بیدار ہوا اوربڑے والے ’’ایک سالہ ‘‘ لڑکے کو تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو انہوں نے سختی سے روکااور ہاتھ کھینچا اور کہا کہ میرے ساتھ روز کا یہی معاملہ اور آپ ایک دن یہاں آتے ہیں اور ان معصوموں پر چلاتے ہیں۔تمہیں کیا تکلیف ہے اگر نیند خراب ہورہی ہے توجاکر الگ کمرے میں سوجاؤ۔یقین جانیں۔ جب یہ صورت حال دیکھتا ہوں تو مجھے حدیث کے وہ الفاظ جن میں تین دفعہ مسلسل ماں کے ساتھ احسان عظیم کرنے کا حکم وارد ہوا ہے صحیح معنوں میں سمجھ آنے لگتے ہیں۔سچ ہے کہ انسان دلیل سے زیادہ مشاہدہ و تجربہ سے سیکھتا ہے اور مانتا ہے۔جب رات کے دو بجے میرے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے تو مجھے بے ساختہ اپنی ماں یاد آجاتی ہے۔ اپنا بچپن یاد آجاتا ہے۔اپنی چیخیں یاد آجاتی ہیں۔پیشاب کے پوتھڑے بھی یاد آجاتے ہیں۔ اپنی ماں کی وہ تمام تکالیف بھی یاد آجاتی ہیں جو اس نے ہم گیارہ بہن بھائیوں کے لیے اٹھائی ہے جن میں تین پیدائش کے چند دن بعد اللہ کے پیارے ہوئے ہیں اور فرمان نبی ﷺ کے مطابق جنت میری ماں کے لیے لازم بن گئی ہے۔اور میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میں نے اپنی ماں کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ٹھیک اسی وقت میں اٹھ کھڑا ہو جاتا ہوں، متصل کمرے میں سوئی ہوئی اپنی والدہ کو جگاتا ہوں،بیمار ماں کی خبرگیری کرتا ہوں۔ ان کا سر ہاتھ میں لے کر دیر تک ان سے مختلف سوالات پوچھتا رہتا ہوں اوران کے ہاتھ بے اختیار چومتا رہتا ہوں۔ وہ مسکراکر صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ باقی سب تو ٹھیک تھا مگر آپ کو سنبھالنے کے لیے صرف ایک ہی چادر ہوا کرتی تھی جو میرے صوبیدار ماموں جان نے عنایت کیا تھا۔ میرے بول و براز سے چادر کا ایک حصہ گیلا ہوجاتا تو دوسری حصے میں مجھے لپیٹی ۔ اور میری ماں کو یہ عمل سخت تکلیف میں مبتلاکردیتا کہ اس کے اکلوتے بیٹے کے لیے صرف اور صرف ایک ہی چارد میسر ہے۔انہیں آج بھی اپنی تکالیف کا احساس نہیں جو انہوں نے میرے لیے اٹھائی ہے۔ میرے اصرار پر صرف اتنا کہہ دیتی ہے کہ ہر ماں اپنے بچوں سے محبت اور ان کے لیے تکالیف جھیلتی ہے۔ اس میں میرا کیا کمال ہے۔یہ تو فطرت خدا وندی ہے۔طوالت کا خوف نہ ہوتا تواپنی ماں کی محبت کے کئی دلفریب واقعات لکھ دیتا۔
میرے آقا ﷺ نے سو فیصددرست فرمایا کہ انسانی خدمت اجر عظیم کا مستحق ہے۔ اور قرآن پاک جگہ جگہ اس کا ارشاد بھی کرتا ہے۔تو میں عرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا بچوں کو پیدا کرنااور ان کی تربیت کرنا انسانی خدمت نہیں؟۔ کیا معصوم بچہ انسان نہیں؟ ہاں یہ سچ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ کسی غریب کی مدد کرنا، کسی مریض کی بیمار پرسی کرنا،کسی پیاسے کو پانی پلانا، کسی بھوکے کو روٹی کھلانا، کسی یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا،کسی طالب علم کی تعلیم میں معاونت کرنااور ان جیسی دیگر انسانی خدمات کوئی مشکل نہیں۔ بخدا ! اگر مشکل ہے تو کئی سیر کا بچہ نو ماہ تک پیٹ میں لیے پھرنا مشکل ہے۔زندگی اور موت کے انتہائی اتصالی حالت میں پہنچ کر بچے کو جنم دینا،اُف! وضع حمل کی چیخیں اور آہیں…اور پھرآج کل ا پریشن کے ذریعے پیٹ چاک کرواکر بچہ نکلوانا،دو سال تک دودھ کی شکل میں خون جگر پلانا، سخت جھاڑوں میں اور رات کے آخری پہر میں جاگ کر بیمار بچے کو لوریاں دینا اور پھر تاحیات اپنے نافرمان سے نافرمان بچوں سے بے لوث محبت کرنا اور ان کی کامیابی وکامرانی کے لیے خدا کا دروازہ کٹھکٹھانا سب سے زیادہ مشکل اور اصعب کام ہے۔اور یہی تو انسانی خدمت و مخلوق خدا سے محبت کا لازوال شاہکار ہے۔ جس کی کوئی تمثیل نہیں۔زیادہ نہیں صرف ایک بچے کو پالنا پوسناعظیم قربانی و ایثار کا متقاضی ہے۔ جی کرتا ہے کہ ماں جیسی مجسم محبت ہستی پر لاکھوں جنتیں قربان کروں کیونکہ اس کے پاؤں کے دھول تلے جنت ہے تو اس کے ہاتھوں کی شفقت، دل کی محبت اور زبان کی لوریوں تلے کیا سے کیا ہوسکتا ہے۔ جس کا بیان میرے جیسے کوتاہ علم وعمل کے لیے ممکن ہی نہیں۔
میں نے یہ بات سینکڑوں دفعہ کہی ہے کہ میں سخت سے سخت مشکل اور تکلیف سے نہیں ڈرتا۔ اس لیے کہ میری ماں زندہ ہے اور اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ میری حفاظت اور کامیابی کے لیے ہمہ دم اٹھتے رہتے ہیں۔میری ماں جس کے ماتھے میں نور، جس کے آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کے دل میں محبت، جس کی زبان میں مٹھاس، جس کے لرزہ براندام ہاتھوں میں شفقت،جس کی باتوں میں مودت ، جس کی آغوش میں دھرتی کا سب سے بڑا سکون و طمانیت اور سب سے بڑھ کر اس کے میلے کچیلے پاؤں تلے میرے لئے جنت الفردوس ہے۔ اسی ماں کی خدمت گزاری کا موقع مجھ جیسے کوتاہ کو حاصل ہے تو پھر ڈرنے ورنے کی کوئی بات نہیں۔خدا اور رسول کی اطاعت کے بعد میرے لیے بقول خدا سب سے بڑھ کر جس ہستی کی عظمت و احترام کا حکم ہے وہ میری ’’ماں‘‘ ہے ۔ بقول تابش کے کہ
گردشیں لوٹ جاتی ہیں میری بلائیں لے کر
گھر سے جب نکلتا ہوں میں ماں کی دعائیں لے کر
لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی
اک ماں ہی ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی