Site icon Daily Chitral

اساتذہ کا وفد لاہور میں سابق پرنسپل جی ۔ڈی ۔لینگ لینڈ کو منانے میں ناکام،بچوں کا مستقبل داؤ پر۔وزیراعلیٰ اوروزیر تعلیم نوٹس لیں

چترال (بشیر حسین آزاد) چترال کا معروف تعلیمی ادارہ لینگ لینڈ ز پبلک سکول اینڈ کالج کو اس کا غیر ملکی خاتون پرنسپل گزشتہ چھ ماہ سے ای۔ میل، مسیج اور ٹیلی فون کے ذریعے چلارہی ہے جس کی ویزا میں محکمہ داخلہ نے توسیع نہ کرنے کی وجہ سے وہ واپس پاکستان نہیں آسکتی ہے ۔ درین اثناء سکول کے پچاس سے زیادہ اساتذہ اور لیڈی ٹیچرز نے سکول کو بند کر کے مس کیری کی ویزے میں توسیع کرانے کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جس سے سکول میں زیر تعلیم سینکڑوں طلباء طالبات اور ان کے والدین میں سخت تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے جوکہ سکول کی غیر ضروری بندش کو بچوں کی قیمتی وقت کی ضیاع قرار دے رہے ہیں جبکہ گزشتہ مارچ میں تعلیمی سال کے بالکل آغاز میں بھی سکول کو چالیس دن سے زیادہ کے لئے بند رکھا گیا تھا۔ مس کیر ی نے دوسال قبل سکول کا انتظام سنھبالنے کے بعد اصلاحات کے نام پر بعض اساتذہ کو بیک جنبش قلم ملازمت سے سبکدوش کیا تھا جنہیں ان کے پیشرو پرنسپل جی ۔ڈی ۔ لینگ لینڈ نے پندرہ سے بیس سال قبل بھرتی کیا تھاجبکہ ٹیوشن فیسوں اور ٹرانسپورٹ فیسوں میں سو فیصد اضافہ بھی کردیا تھا جس سے ان کے خلاف ایک محاذ بن گئی تھی۔ جب سبکدوش کردہ اساتذہ کی بحالی کے لئے جی۔ ڈی۔ لینگ لینڈ کی بات کو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا تو انہوں وفاقی وزیر داخلہ کے ذریعے ان کا ویزا منسوخ کرادیا جوکہ لینگ لینڈ کا شاگرد رہا ہے۔ ذرائع نے بتایاہے کہ اساتذہ کا وفد لاہور میں سکونت پذیر سابق پرنسپل جی ۔ڈی ۔لینگ لینڈ کو منانے میں ناکام رہے ہیں جوکہ سبکدوش کردہ اساتذہ کی بحالی پر مصر ہیں۔ سکول میں زیر تعلیم والدین اس بات پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ فیسوں میں غیر معمولی اضافے کے ذریعے اس سکول کو اشرافیہ کے لئے مخصوص کیا جارہا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی فیسوں کے اکثر والدین متحمل نہیں ہوکر اپنے بچوں کو سکول سے اُٹھانے پر مجبور ہوں گے۔ والدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مس کیری نے سکول کے منظور نظر ٹیچنگ اسٹاف کی تنخواہوں میں غیر منظقی اور بغیر کسی تناسب اور مقررہ شرح اضافہ کردیا ہے اور ماہوار 30سے 35ہزار روپے تنخواہ لینے والے اب ایک لاکھ روپے سے ذیادہ لے رہے ہیں۔ والدین سکول سے باہر ایسے حضرات کی سکول کے معاملات میں مداخلت پر بھی حیرانگی کا اظہار کررہے ہیں جن کے بچے بچیاں کبھی بھی سکول میں زیر تعلیم نہیں رہے ہیں ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔

Exit mobile version