Site icon Daily Chitral

شہر نا پرسان ….. ریشن میں GGDC بونی کی طالبات کے ساتھ دھرنے میں ……حافظ نصیراللہ منصورچترالی


اپنے حقوق کے حق میں طالبات بھی سڑکوں پر
طلباء و طالبات کسی قوم کے وہ سرمایہ ہیں جن پر ملک و قوم ہمیشہ اس وجہ سے فخر کرتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی اور سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے اگر ان کی پر ورش اور تربیت صحت مند ماحول میں ہوجائے تو صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ عقل مندقومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنے طلباء وطالبات کو صحیح معنوں میں دنیاوی پریشانیوں سے ما ورا ماحول میں تربیت کرنے کیلئے ان پر وسائل خرچ کرتی ہیں۔ان کی ضروریات کو اولین ترجیح دیتے ہیں تاکہ یہ نسل اگلی نسل کی صحیح طریقے سے پیش رو بنے ۔تعلیم معاشرے کو بہتر شہری ذہین بچے اور با شعور افراد فراہم کر تی ہے تعلیم ہر قوم کی بنیاد ہوتی ہے اور اسے معاشی دولت، معاشرتی استحکام اور سیاسی قابلیت دیتی ہے ۔تعلیم ایک بہترین سرمایہ کاری ہے جو لوگوں کو بہتر ملازمت کا موقع فراہم کر تی ہے اور بلاشبہ ایک اچھا انسان بننے میں مددبھی دیتی ہے۔غرض ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے اس کے شہریوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔تعلیم میں سرمایہ کاری سے بہتر اور پڑھی لکھی لیبر فورس ،پیداواری صلاحیتوں او رہنر مند ورکرز میں اضافہ کیا جاسکتا ہے جو حکومت اورعوام دونوں کے لئے مفید ہے۔تعلیم کے فروغ میں ابتدائی تعلیم کا اہم کردار ہے۔ ابتدائی تعلیم بچوں کوٹھوس بنیاد مہیا کر تی ہے اگر سکول کا ماحول اور اساتذہ کی حکمت عملی اچھی ہو تو یہ دونوں عوامل بچوں کو ترقی کی جانب راغب کرتے ہیں۔بچے اپنے والدین او راساتذہ کے اعمال و اقوال کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں اور بڑے ہوکر بھی اس پر عمل کر تے ہیں۔پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم اس ضمن میں حالات درست نہیں کر پا رہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا ناقص تعلیمی نظام ،سفارشی ،سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں اور اساتذہ اور سکول و کالج کی انتظامیہ کی طلبہ کے مسائل سے عدم دلچسپی ہے دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں اہلیت او رقابلیت سے عاری عناصر رنگ، نسل اور باہمی عداوت کی بنیاد پر دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہی لوگ اپنے آپ کو معمار کی بجائے مغل اعظم سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی توجہ تعلیم سے نکل کر ہٹ دھرمی، انتقام کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ یہ بچے اپنے اساتذہ اور اپنے خیر خواہوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔اساتذ ہ اور طلبہ کے درمیان محبت کی بجائے عداوت پروان چڑھتی ہے آخر کار یہ طلبہ اپنے اساتذ ہ سے بغاوت پر اتر آتے ہیں۔اساتذہ اور طلباء کے درمیان ہر مرحلہ پر ہم آہنگی ،الفت و محبت اور ہمدردی کی فضا قائم ہو نی چاہئے تاکہ بچے کو حوصلہ افزا اور صحت مند ماحول دیا جا سکے ۔
بچے پھولوں کی طرح ہوتے ہیں او رپودوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں اس باغیچہ کے باغبان والدین اور اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔ باغبان ہی اپنے باغ کے پھولوں کا اصل نگہبان اور ذمہ دارہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ پودوں کی نشوونما کس نہج پہ شروع ہوئی ہے اوراب کس مرحلے میں ہے پودوں کی کانٹ چھانٹ کیاریوں کی صفائی اور ترتیب ان کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہمارے سکولوں میں اس روایت کا فقدان ہے ۔پرنسپل سکول کے اندر اپنے آپ کو ذمہ دار کی بجائے حکمران سمجھتا ہے اور کلاس روم سے باہر اپنے بچوں سے لاتعلقی کا اظہار کر تا ہے توبچے بھی محبت او ررواداری سے عاری ہوتے ہیں ۔ماورائے نصاب سرگرمیوں میں اساتذہ کی رہنمائی نہ ہو تو کلاس روم کی محنت بھی رائیگاں جاتی ہے اور بچے معاشرے کے گمراہ لوگوں کی صحبت میں جاکر نشے جیسی لعنت میں لت پت ہوجاتے ہیں جو معاشرے کے لئے بہت بڑا لمیہ ہے جن کی ضرر رسانیوں سے معاشرہ کا نظام بگڑ جاتاہے ۔
گزشتہ دنوں مجھے بھی راہ چلتے چلتے ایسے ہی واقعہ کا مشاہدہ کر نا پڑا ۔ چترال کی تاریخ میں غالبا پہلی مرتبہ طالبات گھر اور سکول کی چاردیواریوں سے نکل کر سڑکوں میں آکر ڈسٹرکٹ اور کالج کی پرنسپل او رانتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کر نے لگیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو للکارتی رہیں حتی کہ ان اداروں کو ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی صفائی پیش کرنا پڑی ۔ یقیناًان مربیوں ہی کی کارستانیوں کی وجہ سے چترال شہر سے تقریبا پچاس کلومیڑ دور ریشن کے مقام پر گورنمنٹ گرلزڈگری کالج بونی کے طالبات کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت پڑی۔سب ڈویژن مستوج کی سب سے بڑی شاہراہ پر قانون ہاتھ میں لئے یہ طالبات اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کر تی رہی اور یہ معصوم طالبات دونوں انتظامیہ سے مایوس ہماراقومی نعرہ ’’جینا ہوگا ،مرنا ہوگا ،دھرنا ہو گا ،دھرنا ہوگا ،،کے فلگ شگاف نعرے لگاتی رہیں۔یقیناًتعلیم ان کا حق تھا ان کے ساتھ نا انصافیاں ہو رہی تھیں۔یاد رہے کہ چترال کے حالیہ سیلاب کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے ریشن ،مژگول ،اور گرین لشٹ ہیں ۔انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ ان علاقوں کے طلباء و طالبات کو دیگر علاقوں کے ساتھ ایک معیار میں نہ پرکھتے، بلکہ ان کی اشک شوئی کرتے ۔کالج انتظامیہ کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی کہ ان بچے اور بچیوں کے ساتھ خصوصی ہمدردی کا مظاہر ہ کرتے، ان کی فیسوں میں رعایت کی جاتی ،ان کی آمدو رفت کے لئے خصوصی گاڑیوں کا انتظام کیا جاتالیکن یہاں بے رحمانہ سلوک کی حدیں پار کر دی گئیں۔ آخر ان مایوس چہروں کو اپنے ہی کالج ،پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ لگانا پڑا۔میں نے آگے بڑھ کر ان سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے مطالبات بڑے تحمل ،ملنساری عزت و احترام اور ٹیلنٹ سے مجھے بتائے ،ان کے ساتھ ہونے والی ناانصانیوں کی داستان سن کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔میں نے فورا ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور کالج انتظامیہ سے رابطہ کیا اور مذاکرات کے عمل کو شدو مد سے آگے بڑھایا ۔ہزاروں کے مجمع میں کوئی ایک فرد بھی ان کے مطالبات کو ناجائز نہیں کہہ سکتا تھاکیونکہ یہ اپنے بنیادی حقوق مانگ رہے تھے ،ایسے حقوق جو بغیر کہے انہیں ملنا چاہیے تھے ۔میں ان بچیوں کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔کیونکہ یہ تعلیم کی آس لگا رہی تھی یہ بچیاں بے پناہ خوبیوں کی مالک،سمجھدار اور معاشرے سے باخبر تھیں۔ احتجاج کے دوران بھی انہوں نے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ۔مجھے اس بات سے بہت افسوس ہے کہ کالج کی پرنسپل نے ایک سوال کے جواب میں ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا ’’ کالج کی چاردیواری سے باہر مظاہرین سے میراکوئی تعلق نہیں ‘‘افسوس صد افسوس !کالج انتظامیہ کو اپنی بچیوں سے وہ سلوک کرنا چاہئے جو ایک سنجیدہ پڑھی لکھی ماں اپنی اولاد سے کر سکتی ہے کیونکہ ان کی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے آپ قوم کی پڑھی لکھی معمار ہیں،آپ ان بچیوں کو کن سرگرمیوں میں لگا رہی ہیں ؟۔کیا آپ ان کے مسائل سے آگاہ نہیں تھیں؟حکومت اور قوم نے آپ کو ان کی تربیت پر مامور کیا ہے، کیا آپ کما حقہ اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں ؟تعلیم کے پیاسوں کو سڑکوں پر مطالبات منوانے کی تعلیم کس نے دی ؟ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سوال کا حق محفوظ رکھتا ہوں کہ کیا اس سازش کے پیچھے چھپے ہاتھوں کو بے نقاب کیا گیا ؟اورمیں ارباب اختیار سے اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو بھی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ سکولوں اور کالجوں کی خصوصی نگرانی کریں اورطلباء کے مسائل حل کریں ۔یہ ہمارا سرمایہ ہیں ورنہ چترال کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے ایسے کالج لگ سکتے ہیں جس کی چترال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بنیاد رکھی گئی ہے اور عوام منتخب نمائندوں سے یہ کہنے پر حق بجانب ہے کہ وہ لوٹا کریسی کی سیاست اب بند کردیں۔جب وعدہ کریں تو نبھائیں ورنہ یہ نعرے بار بار چترال کی گلی کوچوں سے سننے کو ملیں گے۔اور پولیس کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں قانون سمجھے اور اس پر عمل درآمد کرائے اور قانون کو اپنے گلے کا پھاندہ نہ بنائیں وہ دن دور نہیں کہ اس دھرتی کا بچہ بچہ قانون دان ہوگا

Exit mobile version