Site icon Daily Chitral

شامتِ اعمال ۔۔۔۔۔۔ احسان شہابیؔ

بھونچال آگیا ، ہم نے زمین کو جھولے کی طرح ہلتے دیکھا، کئی مکانات زمین بوس ہوگئے،کئی لوگ مرے، سینکڑوں زخمی ہوئے پھر بھی ہمارا چیت نہیں جاگا۔ سب اپنے گھروں ،دفتروں ،کمروں سے باہر کی طرف بھاگ نکلے ، افراتفری کا عالم تھا۔ میرے آس پاس بیسیوں لوگ کھڑے تھے سب کی زبان پر اللہ تھا صرف اللہ ۔ جس کا نام صرف ہماری زبانوں میں ہے۔
اللہ کاخوف،اللہ کی محبت نہ ہمارے دلوں میں باقی نہ ہمارے گھروں میں موجود ، نہ ہمارے دفتروں میں عیاں ۔ہم سب کردگار کو بھلا کر اپنے اپنے دھندوں میں گُم ہیں۔ ہماری دانست میں ہم ہی اپنے کردگار ٹھرے ۔ ہماری زبان میکانیکی انداز میں اللہ کا نام لیتی ہے لیکن ہمارے دلوں کو پتہ تک نہیں چلتا۔انسان بڑا ہی ڈھیٹ واقع ہوا ۔ امن،سکون اور تندرستی میں اکڑ اکڑکر چلتا ہے۔ اس کے دماغ میں ’’مَیں‘‘ کے بھڑوں کا بہت بڑا چھتا ہو تاہے اور ہر وقت ’’ من چہ است دیگرے نیست ‘‘ کا راگ الاپتا رہتا ہے۔ جب مصیبت کی گھڑی آن پہنچتی ہے تو انسان کو اللہ یاد آتا ہے ۔ بڑے بڑے گرانڈیل جوان ، ڈارون کے نظریہ ارتقا پر یقین رکھنے والے سکالرز ،بڑے سیٹھ ساہوکار،جاگیر دار ،سرمایہ دار جن کی اکڑی گردنیں جھکنا نہیں جانتیں ،جن کے دفتروں ، گھروں ، کارخانوں اور دکانوں میں اللہ کے احکامات کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے وہ بھی مصیبت کے وقت اللہ اللہ کرتے ہیں ۔ اکڑی گردنوں میں جھول آجاتی ہے ، لیکن اللہ کسی کو اس کے اوقات یاد نہیں دلاتا،کسی کا منہ نہیں چڑاتا سب پر یکساں مہربان ہے ۔سب کی سنتا ہے ۔ وہ لوگ جو خداکے وجود کے منکر ہیں حقیقت میں وہ بھی اپنے ساتھ ایک خدا لئے پھرتے ہیں اور جب سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں ،بچنے کی امید ختم ہو جاتی ہے تب ان کے دل سے بھی دعانکلتی ہے ۔اللہ کے سوا کون ہے اس دعا کو سننے والا۔
ہمیں اللہ سے لو لگانے کاگُر نہیں آتا ۔ہم اپنے مسائل ،اپنے غم،اپنا مستقبل خود اپنے کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں ۔ کامیابی اور کامرانی نصیب ہو تو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں ،اپنی محنت کا صلہ گردانتے ہیں ۔ ناکامی اور خواری ہو تو اللہ سے گلے شکوے کرتے ہیں ۔
خوشی و شادمانی ہو تو اللہ کو بھول جاتے ہیں ،مصیبت کی گھڑی ہو تو اللہ کی طرف بھاگتے ہیں ۔ روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں ،معافیاں مانگتے ہیں ۔جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو مشکل کے ساتھ ساتھ مشکل آسان کو بھی بھول جاتے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر لوگ ہاتھ میں تسبیح اور زبان پہ اللہ کا نام ہونے کے باوجود بھی ا للہ کو یاد نہیں رکھتے۔ہم مادے کے پجاری بن گئے ہیں ۔سکّوں کی چمک ہمارے من کو بھاتی ہے مگر مزدور کے پسینے ہمیں نظر نہیں آتے۔دوکاندار سادہ لوح گاہکوں کو لوٹتا ہے ۔زمیندار مزارع کے بچوں پر کتے چھوڑتا ہے۔ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال آئے مریض کو ذاتی کلینک کاراستہ دیکھاتا ہے۔عدالتوں میں انصاف بکتا ہے ،با اثر آدمی کا بیٹا قتل میں ملوّث ہو تو گواہ مکّر جاتے ہیں ۔ صاحب گیارہ بجے دفتر آتا ہے اور بارہ بجے چلا جاتا ہے، چپڑاسی دفتر کی پنسلیں چراتا ہے ۔ آنکھوں میں حیا نام کی کوئی چیز نہیں ۔ سرِراہ صنفِ نازک نظر آئیں تو رال ٹپکنے لگتی ہیں ۔مسجدیں نمازیوں سے بھری ہونے کے باوجود خالی ہیں ۔ چہروں پر ملمع ہے ۔ ہر آدمی میں کئی آدمی ہیں ۔ جب شامت اعمال قدرتی آفات کی شکل میں آپکڑتے ہیں توانسان کو اپنے خاکی وجود کی حیثیت کا پتا چلتا ہے ۔ کوئی مسیحا ، کوئی دارو گیر نہ ہو تو انسان اپنے پالنہار کی طر ف ر جعت کرتا ہے ۔مگر افسوس صد افسوس ہماری رجعت دیرپا نہیں ہوتی ۔ہم بہت جلد سب کچھ بھول کر پھر اپنے اپنے دھندوں میں ایسے جُت جاتے ہیں کہ اللہ سے ہمارا تعلق برائے نام ہی رہ جاتا ہے ۔

Exit mobile version