دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔’’برقعہ‘‘۔۔۔۔محمد جاوید حیات
شادی کی مبارک باد دینے گھر والوں کے ساتھ وہ بھی گئی ہوئی تھی۔ مگر جاتے جاتے سارے راستے بھرکانٹوں پر پاؤں رکھ رہی تھی ۔اس کو اسیا لگ رہا تھا کہ وہ کائنات کامنحوس جزو ہے۔اس پر آسمان سے کوئی چیز گرے گی ۔پتھر ،کنکر ،کانٹے،اولے۔ کیونکہ وہ آج پہلی دفعہ خالی چادرپہنے گھر سے نکلی تھی ۔وہ لمبی موٹی برقعہ دیورانی نے اتار کر پھینک دی تھی ۔جدید تعلیم یافتہ دیورانی سے وہ بحث نہیں کرسکتی تھی ۔نئی نویلی تھی ۔۔ اجنبیت ختم نہیں ہوئی تھی ۔ وہ ابھی ہر ایک کا چہر ہ پڑھنے ،باتیں سننے ،گھرانے کے طور طریقوں کوسمجھنے کی کوشش کررہی تھیی وہ غریب گھرانے کی چشم چراغ تھی ۔بمشکل پانج جماعتیں پڑھی تھی ۔پھر دارالعلوم سے سندلی تھی ۔اس کوزندگی کے عارضی ہونے پہ یقین تھا ۔ اس کو اس بات پہ یقین تھا کہ دنیا کی دو دن کی رنگینی آخرت کی دائمی رنگینی چھین لیتی ہے۔ اس نے دارالعلوم میں پڑھی تھی کہ کائنات کی شہزادی فخر دو جوداتؐکے ارشاد کے جواب میں کہتی ہے ۔بابا ! میں آج اپنے استانے سے باہر آکر شوال کاچاند نہیں دیکھو نگی۔ بابا آج کتنی اجنبی نگا ہیں اس چاند کو تلاش کر رہی ہیں۔ بس اجنبی نگاہیں اس پر پڑھیں گی۔ میں بھی اس کو دیکھوں مجھے شرم آتی ہے بابا۔۔ یہ واقعہ پڑھ کر اس نے کتاب بند کر کے خوب روئی تھی ۔۔ اوراپنے بدن کو خوب سمیٹ لی تھی ۔۔ آج وہ بغیر موٹے برقع کے گھر سے نکلی تھی ۔ ہر ہر قدم پہ رو رہی تھی ۔اس کوعادت ہی نہیں تھی ۔ آج کتنی اجنبی نگاہیں اس پر پڑرہی تھیں ۔آج وہ شوال کا پہلا چاند تھی لیکن اس کا حسن ،اس کی جوانی ،اس کی خوبصورتی صرف اس کے’’سرتاج ‘‘ کے لئے تھی ۔ وہ ہر ہر قدم پر لڑ کھڑا رہی تھی ۔حالانکہ سب لو گ لہک لہک کر چل رہے تھے ۔ اس کے راستے میں بھی کوئی پتھر کوئی کہکشان نہیں تھا۔مگر یہ اجنبی راستہ اس کے گو یا کہکشان تھا ۔اس کے آنسو ہر ہر قدم پر گرتے تھے اور وہ سب سے پیچھے تھی ۔۔ اس کا ’’ جمشید ‘‘ سب سے آگے تھا ۔ سفید ٹوپی پہنے دلہا تھا ۔آزاد منش تھا ۔ہنس رہا تھا ۔ڈاکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہوا تو استاد بن گیا ۔اپنی ’’زندگی ‘‘ کو سب سے پیچھے دیکھ کر پسیج گیا ۔دل بھر آیا محبت موجیں مارنے لگی۔ آخر کواس سے نسبت تو تھی ۔وہ اس کی عزت تھی ۔صرف اس کی تھی ۔ جمشید رُکا قریب آکر کہا۔۔ کیوں سب سے پیچھے کیوں ؟ جمشید نے محسوس کیا کہ اس کا جھکا ہوا سر ویسے نہیں جھکا ہے۔ اس نے جب نگاہین اُٹھا کر جمشیدکی طرف دیکھا تودو موٹے موٹے پاکیزہ انسو اس کی چادر سے ہوتے ہوئے فرش پر گرے ۔ جمشید نے تڑپ کر اس کا گذاز ہاتھ تھام لیا۔ رابعہ کو ایسا لگا کہ وہ جمشید کے ہاتھ کی لمس سے پگھل جائے گی ۔۔ جمشید نے کہا آخر کیا ہو ا ۔۔جمشید یہ زندگی میں پہلی بار ہے کہ میں بغیر برقعہ کے گھر سے نکل رہی ہوں۔اور جمشید کتنی اجنبی آنکھیں ہیں جو مجھے دیکھ رہی ہیں ۔آج میں فخر موجودات ؐ کی سنت کے خلاف کا م کررہی ہوں۔ تم میری زندگی ہو جمشید ۔۔ میری دنیا ہو میری دنیا کی رنگینی ہو۔میرے لئے کھلی کائنات ہو ۔۔میں چاہتی ہوں کہ صرف اور صرف تمہاری نگاہیں مجھ پر پڑیں اور میں ان نگاہیں کی مدہوشی اور مستی میں پگھل سا جاؤں۔جمشید تم میرے خوابون کا شہز داہ ہو۔۔ جمشید ٹھٹھرکررہ گیا ۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس کو ’’ خوابوں کی شہزادہ‘‘ کہاتھا ۔ وہ محبت میں ناکام ہوچکا تھا ۔اس کی واجبی صورت تھی ۔اس نے ’’ کسی ‘‘ کو اپنی محبت کا بہت یقین دلایا تھا مگر ’’ ٹھکرا‘‘ دیاگیا تھا ۔اس نے یہ سب کچھ بھلانے کی بڑی کوشش کی تھی ۔مگر نا کام ہوا تھا ۔ یہ شادی اس کی دادی اماں کی تجویز کردہ تھی ۔جمشید نے بس خالی جگہُ پرکیا تھا ۔والدین کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا تھا ۔اس کی دلہن خوبصورت ترین تھی مگر جس کو جمشیدتعلیم کہتا تھا وہ اس کے پاس نہیں تھی اس کو انگریزی نہیں آتی تھی اس نے سائنس نہیں پڑھی تھی ۔جمشید کی شادی کا دسوان دن تھا مگر ایک بار بھی نگاہیں بھر کر اپنی دلہن کی طرف نہیں دیکھا تھا ۔اس کو راستے میں پیچھے دیکھ کر کیوں اس کا دل بھر آیا تھا ۔یہ جمشید بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ ا ن کو اتنی دیر راستے میں کھڑے دیکھ کر دیورانی چہک گئی چیخ کر کہا ۔۔راستے میں کھڑے ہو شرم نہیںآتی ۔ آجاؤ ۔ ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ لوگ ان کی طرف جاتے ہوئے شرم محسوس کر رہے تھے ۔۔ جمشید نے کہا ۔۔ ہم واپس جاتے ہیں ۔رابعہ کی طبیعت خراب ہے۔ گھر آکر جمشید رابعہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی آنکھوں میں ڈوب کر کہا ۔ رابعہ مجھے سنبھالو ۔۔ مجھے اپنی دنیا میں لے لو ۔۔ مجھے اُس جنت کی سیر کراؤ۔۔ میری زندگی۔ ۔ تم میر لے لئے کھلی کائنات ہو مجھے اس کائنات کا جزو بناؤ ۔مجھے قرآن کے سایے میں لے لو۔۔ میر ی دنیا ۔۔ مجھے اپنی اصل تعلیم جو تو نے حاصل کی ہے اس سے مستفید کرو۔ رابعہ کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو تیر رہے ہیں ان انسوؤں میں جمشید کی تصویر بنی ہوئی تھی ۔۔ صبح کی آذان ہورہی ہے رابعہ کا گداز ہاتھ جمشید کی پشانی پر پڑتا ہے۔ جمشید جاگتا ہے۔ جمشید صبح کی اذان ہو رہی ہے ۔رابعہ موٹی چادر میں لپٹی ہوئی ہے اس کی پشانی پہ سجدے کا جھو مر چمک رہا ہے ۔جمشید اس کا گداز ہاتھ چوم لیتا ہے ۔پھر اپنی آنکھوں سے لگا تا ہے۔رابعہ اس کی پشانی پر طویل بوسہ دیتی ہے۔جمشید وضو بنا کے مسجد جاتاہے ۔۔۔۔رابعہ اور جمشید کی بڑی بچی سائنس گریجویٹ ہے اور حافظ قرآن بھی ہے۔ بیٹا میڈیکل کالج سے فارغ ہو کے آیا ہے۔ آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے ۔وہ ماں کے سامنے کھڑا ہے ۔۔۔۔کہتا ہے ۔ماں پگڑی کیسی لگی ۔۔ میرے ڈاکٹر سنت رسول ؐ کبھی بر ی بھی لگتی ہے۔اس کی پشانی چومتی ہے ۔۔۔با پ کہتا ہے ۔پاپو میر ے پاس نہیں آؤ گے کیا؟ ۔۔میں اپنے حصے کا بوسہ کس کو دوں۔۔ جس کو ہم تعلیم کہتے ہیں۔اس میں دین اور تربیت شامل نہ ہو تو نتیجہ افرتفری ہے۔۔بغاوت ہے نافرمانی ہے ۔فحاشی عریانی ہے۔ بے سکونی بے اطمینانی ہے۔اولاد اور ماں باپ میں فاصلہ ہے۔خاندان کا ٹوٹنا ہے فرد فرد کا بکھرنا ہے۔ہمارے پاس ایک منزل ہے ایک دائر ہ ہے ایک معیار ہے۔اسی دائر ے میں رہتے ہوئے جو کچھ حاصل کریں وہ ہمارے لئے باعث رحمت اور کامیابی ہے ہم مسلمان اور تربیت یافتہ ڈاکٹر ،انجینئر اور افسیر بن سکیں تب معاشرے کے بگاڑ کوروک سکتے ہیں ۔قوم کی درست نہج پر خدمت کرسکتے ہیں اور مقام انسانیت پر سرفراز ہوسکتے ہیں ورنہ تو ٹوٹ ٹوٹ کے بکھر نا ہے خواہ ڈگریاں جتنی بھی ہو ں۔عہد ہ جتنا بھی بڑ ا ہو۔۔