Site icon Daily Chitral

امداد کے نام پر متاثرین کی تحقیر اور شخصیات کی تشہیر/تحریر: کمال عبدالجمیل


قدرتی آفات پر کسی کو کنٹرول نہیں، یہ کسی کے دسترس میں نہیں آتے، ان میں سے بعض کے بارے میں پیشنگوئی توکی جاتی ہے مگر حتمی تعین کرنے میں انسانی عقل مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ انسانی عقل سمیت سائنس اور ٹیکنالوجی یہ بھی تفتیش کرنے اور تعین کرنے میں بالکل ناکام ہے کہ قدرتی آفت کا شکار کون لوگ بن جائینگے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ماہرین نے ’’ولنرایبل‘‘ (Vulnerable)کی اصطلاح وضع کی ہے جس میں اکثر غریب اور مفلوک الحال لوگوں کو ڈالکر یہ کہا جاتا ہے کہ قدرتی آفات (Natural Calamities)کے زیادہ تر شکار بلکہ بری طرح شکار یہی طبقہ ہوتے ہیں۔ بالکل درست ہے جی۔۔۔ غریب کا گھر کچہ ہوتا ہے، مکان نا پختہ ہو تے ہیں، اوزار کمزور ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا سیلاب یا زلزلہ سے صرف غریب لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا نسبتاً محفوظ تصورکئے جانے والے حصے ہر طرح سے محفوظ ہوتے ہیں؟بالکل نہیں۔ قدرتی آفت سے کوئی بھی خود کو محفوظ نہیں کہہ سکتا۔۔ امیر وکبیر ، وزیر و مشیر بھی نہیں، بیوروکریٹ اور ناظمین بھی نہیں اور غریب بھی نہیں۔ کسی جگہے کو بھی محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا قدرتی آفات کی وجہ سے کوئی بھی متاثر ہو سکتا ہے اور بری طرح متاثر ہوسکتاہے اور اسے صرف غریب یا متوسط طبقے کیساتھ نتھی نہیں کیا جا سکتا ۔ کوئی اگر شاندار محل یا کوٹھی میں رہتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کسی آفت کے نتیجے میں چھت سے ہی محروم ہو۔ اب آتے ہیں اصل نقطے کی طرف۔ اس سال وطن عزیز (چترال) کو یکے بعد دیگرے تباہ کن قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے سیلابوں نے مکین اور مکان کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے اور بعدازاں زلزلے نے تلپٹ کر دیا۔ ان دونوں قدرتی آفات میں یہ بات سامنے آئی اور مزید واضح ہو گئی کہ قدرتی آفات سے ہر گھر اور ہر فرد بالواسطہ یا بلا واسطہ بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ سیلاب اورزلزلے نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ امیر کا گھر ہے یا غریب کا، سیاستدان کا گھر ہے یا صحافی کا ، سرکاری آفیسر کی کوٹھی ہے یا کسی معمولی اہلکار کا۔ قدرتی آفات آگئے اور اپنے پیچھے تباہ حال چترال اور غم واندوہ کی دردناک داستانیں چھوڑ دیں۔ان حادثات میں مرنے والے تو دنیا کے رنج وآلام ، مصائب و مشکلات سے نجات پاگئے مگرجو زندہ بچے ہیں انکی زندگی کے ایام بھی دردناک اورکربناک ہیں۔ اب دوسرا قسط شروع ہوتا ہے اور وہ ہے عوام کی تذلیل کا۔امداد اور تعاون کے نام پر معزز اور محترم مگر متاثرہ شہریوں کیساتھ جو طوفان بد تمیزی اور بد سلوکی کی جاتی ہے وہ انسانیت کے نام پر بد نما داغ ہے۔امداد کے نام پر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں کہ زندہ بچنے والا خود کو بد قسمت سمجھتا ہے کہ کیونکر وہ سیلاب میں بہہ نہیں گیا؟ کیوں نہ زلزلہ نے اسے کسی ملبے تلے نہ لیا؟؟یہ متاثرین زندہ لاش بن کر خود کو بھی کوستے ہیں اور اپنی قسمت کو بھی دہائیاں دیتے ہیں۔ ابتداء میں انہیں امداد کے نام پر آٹا، چینی ، چاول، دال وغیرہ مہیا کئے جاتے ہیں اور کہدیا جاتا ہے کہ ہم نے خوراک کے پیکج فراہم کر دئیے۔ کوئی ان ظالموں سے یہ تو پوچھے کہ جس کا گھر بار برباد ہو چکا ہو اسے آپکے اس 20کلو آٹے کے تھیلے کی کیا پڑی ہے ۔ کیا خوراک کا یہ پیکٹ دیکر آپ (ادارے/شخصیات) اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہو سکتے ہیں ، بالکل نہیں ۔ البتہ یہ ہے کہ متاثرین کی دلجوئی کے لئے انکے ساتھ ایسا تعاون اور امداد کیا جانا ضروری اور فرض بنتا ہے جسے واقعی میں ’’تعاون‘‘ کہا جا سکے۔ یہ کیا تعاون ہے کہ زلزلے میں ایک شخص کا 5/6 کمروں پر مشتمل گھر تباہ ہو گیا ہے، گھر کے 8/10بندے کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں اور سرکاریا ادارے والے آکر انہیں صرف ایک ٹینٹ تھما دیتے ہیں۔ اب امداد دینے کے طریقے کو بھی ذرا ملاحظہ کریں۔ متاثرہ خاندان والوں کو حکم دیتے ہیں کہ آپ کو اگر امدادکی ضرورت ہے تو آپ فلاں وقت فلاں جگہے میں آئیں اور ایک ’’وی آئی پی‘‘ (ناظم، ممبر ، سرکاری افسر) کے ہاتھ سے اپنا سامان اٹھائیں۔ متاثرین وہاں پہنچیں تو خود ساختہ اعلیٰ شخصیات یا پھربرائے نام ’’ عوامی نمائندگان ‘‘سامان کی تقسیم کے نام پر اپنی تشہیر اور فوٹو سیشن کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ سپاہی اور کارندے ڈنڈا ہاتھ میں لیکر متاثرین کو ہانکتے ہیں ، انکی مزید تذلیل کرتے ہیں۔ اگر متاثرین کی امداد ہی کرنا ہے تو انکے گھروں کی دہلیز پر جا کر کیوں نہیں کرتے؟ اگر فوٹوسیشن والوں کو ہمدردی ہی ہے، واقعی میں اگر انہیں دکھ پہنچا ہے، انہیں درد ہو رہا ہے تو پھر چپ چاپ جاکر متاثرین کو کیوں نہیں ملتے ۔ قدرتی آفت نے ان لوگوں کو متاثر کیا ہے مگر ہمارے ادارے اور شخصیات تو انکی برملا تذلیل کرتے ہیں۔ بند کرنا چاہئے انسانیت کے اس تذلیل کو، ختم ہونی چاہئے اوروں کے جنازوں کو اپنی شہرت کے لئے استعمال کرنے کے اس ملعون طریقے کو، بندہونا چاہئے اوروں کے مسمار شدہ گھروں کے ملبوں پر کھڑے ہوکر اپنی سیاسی اور اداراجاتی قد کاٹھ بڑھانے کے وطیروں کو ۔ یہ ادارے والے، یہ شخصیات متاثرین اور انسانیت کی خدمت نہیں کرتے بلکہ در حقیقت یہ متاثرین کی تذلیل کرتے ہیں، انہیں لاکر اپنے سامنے کھڑا کرکے یہ بد ترین احساس دلانے کی جستجو کرتے ہیں کہ ’’ہم‘‘ ہیں کہ آپکو کچھ دینے والے ورنہ تو آپ ملبہ کے ڈھیر میں پڑے ہوئے کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہیں۔ شرم آنی چاہئے ان لوگوں کو جو فوٹو سیشن میں متاثرہ شخص کو ایک چیک تھمانے کے لئے تین تین ’’شخصیات‘‘ کھڑے ہو کر تصویرنکالتے ہیں، ڈوب مرنے کا مقام ہے ایسے ’’شخصیات‘‘ اور اداروں کے لئے جو ایک غریب کو 20کلو کا آٹا دیتے ہوئے چار چارشخصیات تھیلا پکڑوا کر تصویر کشی کرتے ہیں ۔شرم کا مقام ہے کہ ایک شخص متاثر ہے،اسکے گھر جاکر دلجوئی کرنے، اسے حوصلہ دینے کے بجائے ’’ادارے‘‘ اور ’’شخصیات‘‘ انہیں اپنے پیچھے لگادیتے ہیں ، بھکاری بنا ددیتے ہیں، باعزت لوگوں کو گھنٹوں لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں۔ حالیہ قدرتی آفات میں کے نتیجے میں ہر کوئی متاثر ہوا ، چاہے غریب ہو یا امیر مگر مختلف ادارے اور شخصیات نے امداد کی تقسیم کے نام پر طبقاتی تعصب ہو پروان چڑھانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ متاثر متاثر ہے اس میں پھر تفریق کس بات کی؟ کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ شدید متاثر ہیں اور انہیں امداد کی ضرورت ہے مگر اداروں اور شخصیات کے ہاتھوں اپنے تذلیل گوارا نہیں کرتے ہوئے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے کسی کے لائن میں کھڑے نہیں ہوتے۔ قدرتی آفت نے متاثرین کے سر سے چھت چھین لی ہے عزت نہیں مگر ہمارے ’’ ادارے‘‘ اور ’’شخصیات‘‘ جنکی چھت چھن چکی ہے انکی عزت بھی چھین رہے ہیں ، لعنت ہے اس سسٹم پر۔آٹے کا ایک تھیلا یا آدھ کلو گھی دیکر اپنے حق میں نعرے لگوانے اور تشہیر کرنے والے ذرا یہ سوچیں کہ اگر یہی حالت انکے اوپر آجاتی اور انہیں اسی طرح کے تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا تو ان پر کیا بیت جاتی۔ انسانیت کی خدمت ایسے نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانیت کی تحقیر اور تذلیل ہے۔ انسانیت کی خدمت یہ ہے کہ جو متاثرہ شخص ہے اسکی اگر مدد کرنی ہے تو ازراہ کرم امدادی سامان بغیر کسی نمود ونمائش کے اسکے گاؤں میں لیجاکر اس کے حوالے کیا جائے نہ کہ بیچارے متاثرہ شخص کو اپنے پیچھے لگائیں۔ اور اگر انسانیت کی یہ تذلیل اسی طرح جاری رہی تو یاد رکھا جائے کہ ’’ قدرتی آفات پر کسی کو کنٹرول نہیں اور قدرتی آفات یہ نہیں دیکھتے کہ یہ امیر کا گھر ہے یا غریب کا ‘‘۔اگر احتساب اور شفافیت کے لئے تصویر نکالنا نا گزیر ہے تو اس کے بھی مناسب طریقہ وضع کیا جا نا ممکن ہے مگر طریقہ مروجہ ہے وہ بالکل نا مناسب اور تضحیک ہے۔ اسے فوری طور پر بند کرنا چاہئے۔ امداد اور تعاون ضروری ہے، از حد ضروری ہے مگر اسمیں تضحیک نہیں ہونی چاہئے، لوگوں کے عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔متاثرین کے لئے جتنی بھی امداد آتے ہیں وہ انکا حق ہیں بلکہ اس سے زیادہ امدا د کی ضرورت ہے مگر فوٹو سیشن اور مختلف شخصیات کا اپنی تشہیر کے لئے ڈکٹیٹ کرنا نہ انکا حق ہے اور نہ انکا اختیار۔

Exit mobile version