642

جاھل اورجہالت ۔۔۔ایم سرورصدیقی

OOOدرویش ابھی کٹیا میں ہی تھے کہ باہر لوگوں کا ہجوم نظرآنے لگا کچھ برگدکے نیچے۔ موسم خوش گوار ہونے کے باعث زیادہ تر افراد کٹیا کے سامنے کئی ادھر ادھر۔۔۔ کچھ پردے کے پیچھے جہاں خواتین کے بیٹھنے کا الگ سے انتظام تھا جہاں مردوں کو کسی طور جانے کی اجازت نہ تھی ساتھ آئے بچوں نے الگ اودھم مچارکھا تھا کہ مردوں کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی ۔۔۔دنیا میں سب سے بڑا جاہل کون ہے؟جتنے منہ اتنی باتیں جتنے۔۔۔ واعظ اتنی دلیلیں۔۔ کوئی بے سروپاحوالہ دیتا توفہم وفراست رکھنے والوں کے چہروں پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل پھیل جاتی۔۔کوئی ابوجہل کا حوالہ دیتا کوئی کسی اور کا۔۔بھانت بھانت کی بولیاں سن کر لوگ محظوظ ہورہے تھے۔۔۔ اچانک کٹیا کا دروازہ کھلا ایک درازقدسفید لباس میں ملبوس سخص باہر نکلا اس کی صورت ایسی کہ ایمان تازہ ہوجائے۔۔۔یہی وہ دوریش تھے جن کو دیکھنے،ان کی دانش سے بھرپور باتیں سننے لوگ جوق در جوق کچھے چلے آتے۔۔ان کے چہرے پر ہلکا سا تبسم تھا درویش نے ادھر ادھرکا ایک طائرانہ جائزہ لیا اور سب کو بڑی محبت سے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہا حاضرین پر ایک نظردوڑائی ایک ایک فردکی خیر خیر یت دریافت کی پھر پوچھا ۔۔۔ہاں بھئی دوستو آج تو بحث زوروں پر تھی۔۔بحث مباحثہ اچھی بات ہے ا س سے ذہن کھلتاہے لیکن بحث دلیل کے ساتھ ہونی چاہیے کچھ لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں جس سے مسائل جنم لے سکتے ہیں ایک اور بات بڑی اہم ہے کسی بات کو انا کا مسئلہ بھی نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اختلاف اور بات ہے حقیقت اور چیز۔۔۔اختلاف کو حقیقت سمجھ لینا دانائی نہیں اسی طرح حقیقت کو اختلاف بنا لینا بھی کوئی مناسب نہیں ہر چیزکا اپنا ایک مقام ہے ۔۔۔ ایک شخص اپنی جگہ سے اٹھ کھڑاہوا جناب بحث تو یہ ہورہی تھی دنیا میں سب سے بڑا جاہل کون ہے؟ حضور اس پر روشنی ڈالیں شاید کسی کا بھلاہوجائے۔۔۔ درویش نے سرگھماکر اس ظخص کو دیکھا چہرے پر ایک بارپھر تبسم پھیل گیا بڑی متانت سے بولے۔۔۔ اپنی انگشت سے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوئے میاں جی نے بڑی خوبصورت بات کہہ ڈالی ہے شاید آپ نہیں جانتے ۔۔ یقیناًکچھ تو جانتے ہوں گے اچھی بات بتانا بھی بھلا کرنے کے مترادف ہے یہ صدقہۂ جاریہ بھی ہے۔ یہ ایک طرح سے نیکی کا سفر بھی ۔۔ ایک مضطرب نوجوان نے کچھ کہنا چاہا درویش نے ہاتھ اٹھاکر کہا تمہیں اپنے سوال کا جواب جلد مل جائے گا ۔۔۔ آپ نے کبھی سوچنے کی کوشش کی ہے جہالت کیا ہے ؟ زیادہ تر سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے یہ بھی جہالت کی ایک قسم ہے غور کریں۔۔۔فکر کریں آخری الہامی کتاب باربار دعوتِ فکر دیتی ہے لیکن حیف صد حیف ہم پھر بھی غوروفکر نہیں کرتے ۔۔۔ ایک بات جان لو۔۔۔ ہر بات کو اپنے نقط�ۂ نظر سے سوچنا جہالت ہے ۔۔۔وہ اتنا بڑا دانشور تھا کہ پورے عرب میں لوگ مشاورت کے لئے عمر بن ہشام کے پاس آیا کرتے تھے لیکن جب اس نے سچائی کو رد کرکے اپنے نقطہ نظر سے سوچنا شروع کیا ابو جہل کے نام سے مشہور ہوگیا شاید عام آدمی اس کا اصل نام بھی نہ جانتاہو۔۔۔ حاضرین بڑے انہماک سے ان کی باتیں سن رہے تھے ۔۔۔درویش اپنی دھن میں کہے جارہے تھے سچائی میں بڑی قوت ہے کمزور آدمی کو بھی سچ طاقتور بنادیتاہے اب یہاں جو بحث مباحثہ ہورہا تھا۔۔۔ یہ ٹھیک ہے مختلف چیزوں کے متعلق ہر شخص کا اپنا مخصوص نقطہۂ نظرہوسکتاہے۔۔ لوگ مختلف نظریات کی تشریح بھی الگ الگ کرسکتے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن جب حقیقت آشکارہوجائے تو اپنی ذاتی رائے کااظہار اور اسی پہ اصرار سراسر جہالت ہے لیکن آج جدھردیکھو ہر طرف ایسی ہٹ دھرمی ہے کہ دوسرے شرمندہ شرمندہ ہوجاتے ہیں یہ طرزِ عمل اچھی بات نہیں انسان کو انپے کردار اپنی گفتار سے دلوں کو تسخیرکرنے کا ہنر آنا چاہیے اسی اندازسے ہی نفرتوں کا خاتمہ ممکن ہے جب کوئی اپنی غلط بات پر اصرارکرے اس کی بے سروپا استدلال سے دوسروں کا سیخ پا ہونا یقینی بات ہے اس سے اجتناب ہی لازم ہے دنیا میں کوئی شخص عقلِ کل نہیں اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والا دنیا کا سب سے بڑا جاہل ہے اس’’ مرض ‘‘میں بہت لوگ مبتلاہیں سرمایہ دار ،جاگیردار، بڑے بڑے افسر اور اشرافیہ کے کئی لوگ خاص طورپرحکمران جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادہ عقل مند کسی اور ماں جناہی نہیں حالانکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کامل ،اکمل اور مکمل ہے کسی انسان کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ مکمل ہونے دعویٰ کرے جو مکمل ہے وہی عقلِ کل ہے اللہ تعالیٰ کے بعد صرف ہاد�ئ برحق ﷺ کو کامل ،اکمل اور مکمل ہونے کا نمونہ کہا جا سکتاہے نمونہ اس لئے کہ ان کی پوری حیاتِ طیبہ ہمارے سامنے جگمگ جگمگ روشن روشن ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں روشن دلیل بنا کر دونوں جہانوں میں بے مثال کردیا آؤنگر نگر گھومو دنیا کی بڑے سے بڑی شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کرلیں یہ محض دعویٰ نہیں حقیقت ہے دنیا میں فقط حضرت محمد ﷺ ہی کامل ،اکمل اور مکمل ہونے کی شرط پر پورا اتریں گے ہم دنیا دارتو حرص ، لالچ اور اپنے مفادات کے سمندر میں اتنے غرق ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے نظریات، ضروریات اور خیالات بدلتے رہتے ہیں اس قول و فعل کے تضاد نے ہمیں کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے پھر بھی غوروفکر کا یارا نہیں۔ آخری الہامی کتاب باربار دعوتِ فکر دیتی ہے لیکن حیف صد حیف ہم پھر بھی غوروفکر نہیں کرتے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں