26 اکتوبر 2015 ء کے زلزلے میں گاؤں ،شہر اور ٹاؤن ہل گئے ایک محلے میں اگر 10 مکانات گرگئے تو ان مکانوں میں پاکستانیوں کے ساتھ افغان مہاجرین بھی رہتے تھے متاثر ہونے والوں میں پاکستانیوں کے ساتھ افغان مہاجر ین بھی تھے این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے حکام نے نادر شاہی فرمان جاری کیا کہ ہم صرف پاکستانیوں کو ریلیف دینگے افغانیوں کو نہیں دینگے 5 کلو آٹا ، 2 کلو چینی ، 2 کلو دال ، 2 کلو گھی ایک پاؤ چائے کا پیکچ اس محلے میں ایک پڑوسی کو ملتا ہے دوسرے کو نہیں ملتا ایک پھٹا پرا نا بوسیدہ کباڑی کمبل پاکستانی کو ملتا ہے مہاجر کو نہیں ملتا، ایک پھٹا پرانا کباڑی خیمہ پاکستانی کو ملتا ہے مہاجر کونہیں ملتا گرا ہوا مکان پاکستانی کا ہے معاوضہ اُس کا ہوا لیکن سکول یا مدر سے کی دو بچیاں شہید ہوگئی ہیں ایک پاکستانی ہے دوسرا مہاجر ہے پاکستانی کے ماں باپ کو چیک مل جاتاہے مہاجر کو نہیں ملتا دوپڑوسیوں کی ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں ایک پاکستانی ہے دوسرا مہا جر ہے پاکستانی کا علاج مفت ہوتا ہے مہاجر سے 60 ہزار روپے کا تقاضاہوتا ہے دوپڑوسی معذور ہوچکے ہیں پاکستانی کو امداد ی ملتی ہے مہاجر کو نہیں ملتی اس فرق اور امتیاز کو وہ لو گ جانتے ہیں جو پاکستانی دیہات اور شہروں میں گھومتے پھرتے ہیں اور انسانی المیوں کے ساتھ تھوڑی سی واقفیت رکھتے ہیں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے حکام کا پاکستانی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے انسانی المیوں کو کبھی نہیں دیکھا معاشرتی مساوات کو کبھی نہیں پڑھا وہ بند دفتروں میں رہنے والے لوگ ہیں انسانوں کو اندر نہیں چھوڑتے خود باہر نہیں آتے اس لئے اُن کو انسانی المیوں کاکوئی اِدراک نہیں این ڈی ایم اے حکام کو یہ بھی معلوم ہے کہ 1978 ء سے 1981 ء تک جو افغانی مہاجر ہو کر پاکستان آئے تھے اُن کے گھروں پر کوئی بمباری نہیں ہوئی تھی ان کوگھروں سے نہیں نکالا گیا تھا امریکیوں نے اپنے کارندوں اور گماشتوں کے ذریعے اُ ن کو سبز باغ دکھا کر باقاعد ہ دعوت دے کر بلا یا تھا ستمبر 1978 ء میں امریکہ نے چترال کی وادی گولین میں افغان جنگ کی پہلی ڈمی فلم بنائی تھی اس ڈمی فلم کے گواہ اب بھی زند ہ ہیں اس فلم کو دکھا کر یورپ اور عرب میں افغان جنگ کے لئے چند ہ اکٹھا کیا گیا تھا این ڈی ایم اے حکام کا پاکستانی معاشر ے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اُن کواس بات کا بھی علم نہیں کہ سرکاری پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کو پاکستان کے دیہات اور شہروں کے اندر گلیوں اور محلوں میں جگہ دی گئی تھی جبکہ ایران کی حکومت نے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو جنگی قیدیوں کی طرح خار دار تاروں کے اندر قید رکھا اور 10 سال بعد اُ ن کو گن گن کر واپس افغان بھیجد یا ایرانی حکام امریکی پالیسی کے پابند نہیں تھے پاکستان میں ضیا ء الحق اور اُن کے جانشینوں کی بہت سی مجبوریاں تھیں ان مجبوریوں کی شہادتیں جگہ جگہ دستیاب ہیں میرے پڑوس میں جو افغان مہاجررہتے ہیں وہ امریکہ کے مہمان تھے سعودی عرب کی طرف سے اُن کو سبز باغ دکھائے گئے تھے ایک کنبے میں 55 سال کی خاتون دیوار گرنے سے فوت ہوگئی دوسرے کنبے میں13 سال کی بچی مدرسہ سے گھر آتے ہوئے دیوار کے نیچے آکر دم توڑگئی دونوں کنبے کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں 20 دن ہوگئے حکومت کی لسٹ میں ان لوگوں کے نام نہیں ہیں اسلئے جماعتہ الدعوۃکی طرف آنے والی سعودی امداد بھی ان کو نہیں ملتی جماعتہ الدعوہ بھی اُن کنبوں کو امداد دیتی ہے جو حکومت اور این ڈی ایم اے کی طرف سے شارٹ لِسٹ ہو کر اُن کے پاس آئے ہیں اور این ڈی ایم اے کی طرف سے ان کو امداد کے مستحق قرار دیا گیا ہے افغان مہاجرین کا اپنا کمشنر یٹ بھی ہے کمشنریٹ نے کوئی توجہ نہیں دی یو این ایچ سی آر اقوام متحدہ کی طرف سے این ڈی ایم اے کو امداد بھیجتی ہے اور پھر نہیں پوچھتی کہ امداد مہاجرین کو مل گئی یا نہیں؟ افغان حکومت اور پاکستان میں افغان سفار ت خانہ کی طرف سے اور ان مہاجرین کے بارے میں بے حسی کا مظاہر ہ دیکھنے میںآتاہے دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محلے میں زلزلہ سے متاثر ہو نے والے 1232 افراد ایک جیسے لوگ ہیں ان میں سے این ڈی ایم اے کو 200 1لوگ نظر آتے ہیں 32 متاثرین نظر نہیںآتے اُن کو خیمہ ، ترپال ،اور کمبل کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا اُ ن کو 5 کلوآٹا ، 2کلو گھی ،2 کلو چینی اور ایک پاؤ چائے والے پیکج کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا جرم یہ ہے کہ افغان مہاجر ہیں اس طرح کے ظلم سے ایک اور عذاب کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے افغان مہاجرین کے کمشنر یٹ اور افغان سفارت خانے کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔