291

زبانِ اہلِ زمیں۔۔۔ہمیں کچھ نہ کہا جائے۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی

ماڈل ٹاؤن میں خون سڑکوں پہ بہے۔ بلدیاتی انتخابات کو خون سے “رنگین”کر دیا جائے۔ وزراء ، مشرا، صاحبان اقتدار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے رہیں۔قصور میں بچپن پامال ہوتا رہے۔ خیر پور میں لاشے گرائے جا رہے ہوں۔ اقتدار کی بندر بانٹ جاری ہو۔ خزانے کو قرض سے بھرا جا رہا ہو۔ صوبوں میں ایم پی ایز کی وافر مقدار میں ہونے کے باوجود فیصلے تن تنہا کیے جاتے ہوں۔ نصف سے زائد وزارتیں نمائشی ہوں اور ان کے فیصلے کرنے کا اختیار وزراء کے پاس نہ ہو۔صوبائی داخلی صورت حال کے نگہبان کو لہو لہان کر دیا جائے۔ سالہا سال سے زیر انتظام صوبہ پیرس نہ بن پا رہا ہو ۔ ریگستان میں موت منہ کھولے نونہالان وطن کو لقمہ بنا رہی ہو۔ شہری علاقوں میں گرمی سینکڑوں لوگوں کو نگل جائے۔ سڑکوں پہ رکشوں میں نئی نسل جنم لے رہی ہو۔ اپنے مخالفین کی کردار کشی پہ لاکھوں روپے خرچ کیے جا رہے ہوں۔ اتنی لاگت منصوبوں کی نہ ہو جتنے ان کی تشہیر پہ خرچ کیے جا رہے ہوں۔ مکمل توانائی کسی جوڑے کی ظلاق کے موضوع پہ صرف کی جا رہی ہو۔ عوام کو قبروں کا مجاور بنایا جا رہا ہو۔ اربوں روپے بسیں چلانے میں صرف ہو رہی ہو۔ اپنے مرحوم قائدین کے نام پہ فنڈز قائم کیے جا رہے ہوں۔ عالمی برادری ہمیں گھاس نہ ڈال رہی ہو۔ IMF ہم کو حکم دے رہا ہو اور ہم اپنے لوگوں پہ بوجھ ڈال رہے ہوں۔سرکاری حج و عمرے معمولی بات ہو۔ بے شک قیمتوں میں اضافہ معمولی بات بن جائے۔ اختیارات کا مرکز خاندان بن رہے ہوں۔ سائیں تو سائیں ، سائیں کے مرید بھی شاہ بن جائیں۔ جس ڈکٹیٹر کو گالیاں دیں اس کے ساتھی ہر صوبے میں ساتھی ہوں۔ایک پرانی کتھا کہ سینکڑوں عورتیں جانوروں کی طرح بند ہوں(بحوالہ کالم: ارشاد بھٹی، 12نومبر) ۔ قوم کو اقبال کے پیغام کے بجائے بس چھٹی پہ بحث میں الجھا دیا جائے۔ جنازے سڑکوں پہ رکھ کے احتجاج کیا جائے۔ سیلاب سالوں کی محنت پہ پانی پھیر دے۔ میڈیا میں اپنے اپنے گروپ بنائے ہوئے ہوں۔ملک کے اثاثے اونے پونے بیچ کر فخریہ اسے کارکردگی گردانا جا رہا ہوں۔ پی ٹی سی ایل کے بزرگ پنشنرز اپنے حق کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہوں۔ پرال میں سے سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا جائے۔ زکوٰۃ و عشر کے محکمے کے ہزاروں ملازمین اپنی مستقلی کے عدالتوں کے در کھٹکھا رہے ہوں۔ شماریات کے ذیلی ادارے کے ملازمین ہاتھوں میں اپنے حق میں آنے والے فیصلے تھامے توہین عدالت کی درخواستیں دے رہے ہوں۔”اشرافیہ”سڑکوں سے بلٹ پروف گاڑیوں کے بناء سفر نہ کر سکتے ہوں۔جاتی عمرہ کو قلعہ بنانے کے لیے بے شک 36کروڑ مختص کر دیے جائیں۔ صوبائی وزراء بے شک گجروں کے بیان کے نرغے میں ہوں۔ ایک مظلوم ماں بے شک اعلیٰ ترین عدالت میں اپنی مظلومیت کا نوحہ پڑھ رہی ہو۔ہِل میٹلز دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہو۔ پاکستان سٹیل ملز بے شک تباہی کے دہانے پر ہو۔ غرضیکہ بس جو ہو۔۔۔۔ ہماری گورنس ہرگز بری نہیں ہے۔ ۔۔ ہمیں کچھ نہ کہا جائے۔
قوم کو صرف گورنس کے لفظ میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ جیسے اس لفظ کے ساتھ جب “بیڈ” کا اضافہ کر دیا گیا تو یہ جمہوریت کے لیے باعث خطرہ بن گیا۔لفظ گورنس پچھلے چند دن میں تین دفعہ سننے میں آیا ہے۔مسلح افواج کے سربراہ اور اعلیٰ عدلیہ کے دو اعلیٰ ترین منصفین، محترم چیف جسٹس آف پاکستان اور محترم جسٹس جناب فیصل عرب صاحب ۔ حکومت وقت ایک آزمائش سے گزر رہی ہے شاید اسی لیے محترم وزیر اعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ ٹانگیں کھینچنے سے منزل پہ نہیں پہنچا جا سکتا ۔ اب نہ جانے یہ کون سی منزل ہے جس تک ٹانگیں گھسیٹی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کے اکثریت نے عمران خان کے تناظر میں دیکھا لیکن اقلیت اس کو ڈھکا چھپا گلہ کہہ رہی ہے۔ ان سے گلہ جن کو مخاطب بھی نہیں کر پا رہے اور رکا بھی نہیں جا رہا۔ اب تینوں بیانات کا جائزہ لیا جائے تو فوج اس وقت سب سے متحرک ادرہ ہے جو ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس کے بعد عدلیہ دوسرا متحرک ترین ادارہ ہے جو جرائم کی بیخ کنی کے خلاف تیز ترین فیصلوں سے اپنے حصے کا کردار بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔ اب رہ گئی حکومت تو حکومت وقت اپنے حصے کا کام شاید کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہو لیکن اس سے بری الذمہ نہیں ہو پا رہی تب ہی دہائی دینے کی نوبت آئی۔سب سے سرگرم ادارہ اگر صرف قربانیاں ہی دیتا رہے اور نتائج سامنے نہ آئیں تو پھر کیا اس کا اتنا حق بھی نہیں کہ وہ گلہ کر پائے؟ بے شک آئینی طور پر فوج ایک ماتحت ادارہ ہے۔ لیکن اس کا کردار ہر اول دستے کا ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہر اول دستہ زخم سہتا رہے اور پیچھے چلنے والے کنارہ کر جائیں۔ ISPR کے بیان کو سیاسی رنگ دینا ہرگز مشکل نہیں تھا اور ایسا ہی کیا گیا۔ اور بابائے جمہوریت و پارلیمان نے فوراً بیان داغ کر ایک شریف کے حق میں فیصلہ دیا یا یوں کہہ لیں مسائل میں اضافہ کیا۔ واضح سی مثال یہ ہے پشاور واقعے کے بعد فوج نے جس بھی جگہ آپریشن کیا وہاں عملاً سول انتظامیہ کو بہر حال آنا تھا۔ اب اگر سول انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو پائی تو کیا وہ ادارہ اپنی کوششوں کے رائیگاں ہونے پہ احساس دلانے کا حق بھی نہیں رکھتا؟
اسی طرح عدلیہ کی مثال سامنے رکھیں۔ تازہ ترین مثال زین قتل کیس کی ہے۔ ملزمان احاطہ عدالت میں گواہوں کو پیسے دیتے رہے ۔ پراسیکیوٹر صاحب نے بیان بھی دیا کہ ایسا ہی ہوا۔ لوگوں نے پیسے دیتے ہوئے دیکھا بھی لیکن صد افسوس کے مجرمان باعزت بری ہو گئے۔ کیوں کہ بااثر جو ٹھہرے ۔ اب اگر انصاف بااثر طبقے کی باندی بن کر رہ جائے تو وہاں عدلیہ کیا کرے گی ۔ عدلیہ کا کام تو فیصلے کرنا ہے۔ فیصلوں پہ عمل در آمد کروانا تو حکومت وقت کا کام ہے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ میں محترم جسٹس باقر نقوی صاحب کی رپورٹ آئی الٹا ان پہ ہی لعن طعن شروع کر دی گئی ۔ عدلیہ کے فیصلے اسی وقت معاشرے کی بھلائی میں کردار ادا کر پائیں گے جب گورنس کی صورت حال بہتر ہو گی ۔ اور یہی کہنا تھا جسٹس فیصل عرب صاحب کا بھی اور محترم چیف جسٹس آف پاکستان کا بھی ۔
حکومت صرف ایک بیان پر ردعمل دکھا رہی ہے لیکن حیران کن طور پر باقی دو بیانات پہ اس لیے ردعمل جان بوجھ کر نہیں دے رہی کیوں کہ عدلیہ سے کسی بھی طرح محاذ آرئی نہیں چاہتی (ماضی کی طرح) ۔ لیکن فوج کے ساتھ محاذ آرائی کسی قدر آسان اس لیے بھی سمجھی جا رہی ہے کیوں کہ جمہوریت کے آزمائے ہوئے گھوڑے کے پٹ جانے کا شور مچا کرصاف دامن بچا لیا جائے گا۔ ایک طرف تو آپ فوج کو فوری فیصلوں کے لیے بھی عدالتی نظام میں شامل کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایک جائز مطالبے پہ برا بھی منا جاتے ہیں۔ آپریشن فوج کرے ، کرپشن کے خلاف کاروئی نیم فوجی ادارہ رینجرز کرے ، آفات و بلیات میں فوج سامنے آئے ۔ فوری انصاف کے لیے منصف باوردی بٹھا دیے جائیں۔ سب کچھ یہ ادارہ کرئے اور اگر کسی بھی جگہ حکومتی عدم توجہی کا گلہ کر دے وہ آپ کو گوارا نہیں۔ضرب عضب و یا راہ راست، کراچی میں کاروائیاں ہوں یا پھر پختونخواہ میں پکڑ دھکڑ اگر گڈ گورنس نہیں ہو گی تو کچھ حاصل نہیں۔ لہذا بیڈ گورنس پہ جمہوریت کا ماتم کرنے کے بجائے گڈ گورنس لانے کی کوشش کیجیے۔ عملی کام بھی نہ کریں اور کہیں کہ ” ہمیں کچھ نہ کہا جائے”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں