Site icon Daily Chitral

داد بیداد۔۔۔۔۔یس سر اور نو سر!۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

ہفتہ 30جنوری کے اخبارات میں ’’نو سر‘‘ کی ترکیب سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے چیئر مین قمر زمان چوہدری نے افسر شاہی کے حکام کو تنبیہہ کی ہے کہ اپنے اندر نو سر کہنے کی ہمت، جر ء ت اور صلاحیت بیدار کریں۔ ورنہ وزراء اور سیاستدانوں کے ہمراہ تم بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاؤ گے۔ نیب کے چیئرمین کی طرف سے آنے والا انتباہ پڑھ کر بہت سے لوگوں کو انگریزی فلم “یس منسٹر “یاد آئی ہو گی۔ فلم میں منسٹر بد عنوانی کرتا ہے اور آفیسروں کی پوری ٹیم ان کا ساتھ دیتی ہے۔ اسلام آباد، مظفر آباد، گلگت اور سکردو کے لوگ جانتے ہیں کہ امور کشمیر کا وزیر 20گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں لاتا ہے تو ماتحت آفیسر بھی چار چار گاڑیاں سرکاری خرچ پر اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔ لالہ افضل خان امور کشمیر کے وزیر بنے تو انہوں نے ایک گاڑی دفتری استعمال کے لئے رکھی۔ باقی گاڑیاں واپس کیں تو سارے آفیسروں کو اپنی ذاتی استعمال میں رہنے والی چار پانچ سرکاری گاڑیاں واپس کرنے پڑے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انہوں نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریر کا اقتباس فریم کر وا کر تمام آفیسروں کے دفاتر میں لگوانے کا حکم دیا۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بیوروکریسی کے بڑے آفیسروں سے خطا ب کرتے ہوئے کہا تھا ” دیکھو تم ریاست کی خدمت پر مامور ہو۔ کسی شخصیت یا کسی پارٹی کی خدمت تمہارے ذمے نہیں ہے۔ سیاسی لوگ آتے جاتے ہیں۔ تم ان کا ناجائز حکم ہر گز نہ مانو، اپنے ضمیر کے مطابق دیانت داری اور ایمانداری کے ساتھ ریاست کی خدمت کرو’’ بابائے قوم نے یہ بات تین مختلف پیرایوں میں مختلف الفاظ میں کہی۔ انہیں معلوم تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ اب میری پارٹی میں دو نمبر لوگ آگئے ہیں ۔ یہ لوگ آفیسروں سے ناجائز کام لے کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک اور قوم کا نقصان کریں گے۔ جب تک جنرل مشرف اقتدار میں رہے۔ بابائے قوم کی تقریر کے الفاظ دفاتر میں آفیسروں کے سامنے رہے۔ اگر وہ سیاسی عناصر کو ساتھ نہ ملاتے تو ان کی پاکستان کی تاریخ میں مثالی حکومت ہوتی۔ اس اعتبار سے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کی تاریخ سیاستدانوں سے شروع ہو کر سیاستدانوں پر ختم ہوتی ہے۔ بیوروکریسی دفتری امور کی ذمہ دار ہے۔ سیاستدان جتنے غبن کر تا ہے۔ بیوروکریسی کے سامنے ان کے دستخطوں سے کرتا ہے۔ جنرل ایوب خان کی ڈائیریوں میں سیاستدانوں کی بد عنوانیوں کے بے شمار قصے دئے گئے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کی سوانح عمری میں بھی چیدہ چیدہ واقعات ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاستدانوں نے بیوروکریسی کو بھی اپنے ساتھ ملا کر بد عنوانی کے راستے پر ڈالا۔ موجودہ حالات میں نیب کے چیئر مین کا حکم یا انتباہ بہت مناسب اور بر وقت ہے۔ مگر اس انتباہ کے کارگر یا مفید ثابت ہونے کے لئے دو کڑی شرائط ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ قمر زمان چوہدری خود بھی بیوروکریٹ ہیں۔ انہیں حالات کا پورا پورا علم ہے۔ وہ الف سے یا تک حالات سے واقف ہیں۔ ان کو یہ بھی علم ہے کہ سیاست دانوں نے نیب کے قوانین میں پلی بارگین کی غیر قانونی گنجائش کرپشن کو مزید فروغ دینے کے لئے رکھی ہے۔ نیب کا چیئرمین جانتا ہے کہ پلی بارگین کے ذریعے ایک بڑا مجرم سزا سے بچ جاتا ہے۔ 2ارب روپے کی کرپشن کرنے والا سیاست دان 30کروڑ روپے قومی خزانے میں جمع کر کے 30کروڑ روپے کی مساوی رقم چیئرمین نیب کے حصے میں ادا کر کے کل 60کروڑ روپے میں جرم سے پاک ہوتا ہے۔ سزا سے بچ جاتا ہے۔ اگلے انتخابات میں قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو کر پھر وزیر بن جاتا ہے۔ اس راستے سے کرپٹ بیوروکریٹ بھی سیاست میں آجاتے ہیں۔ اس لئے چیئر مین نیب کا پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ پلی بارگین کے کالے قانون کو ختم کریں۔ قومی مجرموں سے لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی وصول کریں۔ قومی احتساب بیورو کے آفیسروں کو تنخواہ اور الاؤنس پر گزارہ کرنے کا مشورہ دیں۔ اور ان کو بھی خبردار کریں کہ پلی بارگین کے ذریعے کمائی ہوئی ایک ایک پائی کرپشن اور حرام ہے۔ پلی بارگین کا جو 50فیصد نیب کے حکام کو ملتا ہے۔ وہ میگا کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی، چور پکڑا گیا۔ اس نے اپنی مرضی کے مطابق لوٹے ہوئے مال کا 20فیصد الگ کیا۔ اس میں سے 50فیصد نیب کو اور 50فیصد حکومت کو دیا۔ 80فیصد کالا دھن سفید ہو گیا۔ کرپشن کا بادشاہ دوبارہ وزیر بن گیا۔ یہ ظلم ہے اور سراسر ظلم ہے۔ دوسری شرط پہلی شرط سے آسان اور سہل ہے۔ نیب کے چیئرمین کو چاہیئے کہ خود بھی ایک بار ’’نو سر‘‘ کہہ کر بیورو کریسی کے لئے مثال قائم کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ چیئر مین نیب رات دن’’یس سر ‘‘ کر تا رہے اور بیوروکریسی کے دیگر پرزے ’’نو سر‘‘ کی مشق کرنے لگ جائیں۔ ایسا نہیں ہو گا۔ ’’ نو سر‘‘ اوپر سے شروع ہو کر بیوروکریسی کی نچلی سطح تک آئے گا۔ یہ بات ممکن نہیں ہے کہ ریونیو بورڈ کا سیکریٹری ’’نو سر ‘‘ کہے اور چیئرمین نیب ’’یس سر‘‘ کہتے رہے۔ یس سر ! ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

Exit mobile version