عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ کا میرے خاندان سے والہانہ محبت۔۔۔۔۔ تحریر:دین محمد ندیم
محترم ایڈوکیٹ عبدالولی خان عابد صاحب کے ساتھ اگرچہ میرا کوئی خاندانی رشتہ نہین تا ہم کبھی کبھار دل کے رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں۔
عابد صاحب ہائی سکول چترال میں میرے والد محترم حاجی حکیم خان مرحوم کے ہونہار و ہوشیار اور خاکسار و تابعدار شاگردوں میں شامل ہیں۔ یہ رشتہ تلمیذ منتقل ہوتے ہوئے برادر کالاں محترم ریٹائرڈ پرنسپل بلبل ولی خان بلبل مرحوم ومقصود کے ساتھ گہری رفاقت مین تبدیل ہوگیا۔ برادرم مرحوم کے ساتھ اس رشتہ رفاقت کو اور بھی استوار کرتے ہوئے خالد بن ولی شہید نے مزید اگے بڑھایا اور اپنی ذاتی شخصیت اور خداداد صلاحیت سے برادر موصوف کے محفل نشینوں میں اپنی خاص جگہ بنا لی۔
خالد اپنے محُب و مخلص باپ کے ہمراہ چرون اویر بھی تشریف لاتے رہے،اسی طرح یہ رشتہ اور بھی مستحکم ہوتا رہا۔اور دونوں باپ بیٹے بھائی جاں کے غم خانہ دل کے اندرونی مکین بن گئے۔
جب شہادت کا آب صفا نوش جان کرتے ہوئے خالد نے اپنا اصلی مقام حاصل کرلیا تو میں نے بڑت تامّل کے بعد یہ اندروہناک خبر بھائی جان کو دی۔ کافی دیر تک خاموشی چھائے رہنے کے بعد بھائی جان کی رقّت آمیز آواز سماعت سے ٹکرائی کہ یا اللہ یہ میں کیا سن رہا ہوں۔ پھر شہید خالد بن ولی کے متعلق پوچھنے کے بعد کہا کہ مین فجر کی نماز پڑھ کر چترال روانہ ہو جا و‘ں گا۔ صبح اٹھ بجے وہ ولی ہاوس دنین پہنج گیا تو باوجود انتہائی تحّمل کے اشکوں کی روانی پر قابو نہیں پا رہا تھا۔ نماز جنازہ کے لئے پولو گراونڈ کی جانب روانہ ہوتے ہوئے بھی ایک عجیب منظر تھا،ہر دل سے آہ نکل رہی تھی،ہر آنکھ سے آنسو جاری تھے اور ہر زبان پر یہی الفاظ جاری تھے کہ خالد اچھا تھا، بہت اچھا تھا،سب سے اچھا تھا۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہُوا سمندر تھا، تا حد نگاہ انسانی سروں کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چترال کی تاریخ میں نماز جنازے کا اس سے بڑا اجتماع شاید کسی آنکھ نے نہیں دیکھی ہے۔
یہ سب کچھ خالد کی شرافت،ہمدردی اور خاکساری و ملنساری کا مظہر تھا۔ وہ ایک ماہر قانون دان، ایک قابل تریں پی ایم ایس افیسر، ایک بہتریں چوگان ناز،سیرت و جمال میں اعلےٰ اور ایک قلعہ نُما گھر کے مکین ہوتے ہوئے بھی تکبر و غرور سے نا ٓشنا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ سہید موصوف کے والد گرامی قدر کی، صاف دلی، نیک نیتی، اعلیٰ اخلاقی تربیت اور بہتریں رہنما ہونا تھی۔
محترم عبدالولی ایڈوکیٹ ہمیشہ کسی بھی تفریق کے بغیر ہر ایک کے دکھ درد میں شریک،غریبون، مسکینوں اور فلاحی اداروں کی چھپکے سے مددگار اور فراخدلانہ اعانت کرنے والے انسان ہیں۔ بلکہ یہ اوصاف کی فطرت ثانیہ بن چکے ہے۔
میرے والد ماجد ۶۹۹۱ء میں جب بیمار ہوکر ہیڈ کواٹر ہسپتال چترال میں داخل ہوئے تو وکیل موصوف بلا ناغہ ہر صبح و شام عیادت کے لیے تشریف لاتے رہے اور بلا باغہ صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا بجھواتے رہے۔ یہ اس کی اپنے استاد کے ساتھ الہانہ عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جب والد صاحب رحلت فرماگئے تو چترال سے چرون اور ہر پہنچنے والے اولین شخص وکیل موصوف تھے۔ اسی طرح جب میرے محسن، برے ہمدم،میرے استاز اور میرے بڑے بھائی بلبل وفات پاگئے تو وکیل موصوف نے اپنے اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ہماری اشک شوئی کے لیے پہنچ گئے۔
اس کے بعد موصوف مرحوم بلبل کے تعزیتی اجلاس میں ان کے کلام کو یکجا کراکر چھپوانے کی زمداری کی اور بہت ہی کم عرصہ میں نوائے بلبل کے نام کے نام سے مرحوم بلبل ولی بلبل کے حلات زندگی اور اشعار پر مشتمل کتاب کو خطیر اخراجات کے ساتھ زیور طبع سے آراستہ کرواکر ہمارے ہاتھوں میں تھمادیا جو کہ ہمارے پورے خاندان پروکیل موصوف کا تا ابد نہ ادا ہونے والا قرض اور ایک لاجواب احسان عظیم ہے۔
مذکورہ کتاب کی تصنیف سے قبل محترم وکیل موصوف نے مشاورت کے لیے چترال کے ادباوٰ شعرا اور اہل دانش کے ہمراہ اس بندہ باچیز کو بھی اپنے دولت کدے میں مدعو کیا۔ بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے ایک ہنس دیکھ نوجوان سے ملاقات ہوئی، نوجوان خالد بن ولی شھید کا مشابہ تھا، نام پوچھنے پر طارق بن ولی بتایا۔ چونکہ طارق کی بھائی جان سے کبھی بالمشاقہ ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن اس نے جس انداز سے مرحوم بھائی جان کے لئے محبتوں کا جو گلدستہ الفاظ کی صورت میں پیش کیا وہ قابل صد تعریف و توصیف تھے۔طارق کی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ محترم وکیل صاحب اور خالد شہید کی زبانی بھائی جان کی محبت طارق کے دل میں جگہ پا چکی ہے۔
بھائی جان کے بارے میں طارق بن ولی کی تحریر کردہ مضمون بعنوان بُلبل ولی بُلبل ایک منفرد شاعر ایک سہ پارہ اور ایک خرینہء ادب ہے، جو بدقسمتی سے اور بوجو ہ نوائے بلبل کے صفہ میں جگہ نہ رہا سکا۔ ایسے انمول شاہ پارے کو طوالت کے مذموم بہانے سے شامل نہ کرنا صد حیف کے سوا اور کچھ بھی نہیں، کیونکہ یہ مضمون خام محبت میں قظرہ خون دل ملا کر صفحہ قرطاس کے حوالے کیا گیا ہے اور فرید تمام ادبی زیورات سے فرمائیں بھی ہے۔ اس مضمون کے نہ چھپنے سے کتاب کی نصف سے زیادہ وقعت کم ہوگئی ہے اور وہ تحریر بذات ایک اچھی کتاب کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ بہرحال جسکا یہ ہتر تھا اس کے حق میں اقبال کے صرف ایک مصرع پر اکتفا کرتا ہوں کہ
شرمندہ ہوں فطرت، تیرے اعجاز ہنر سے
آخر میں، میں ایک بار پھر محترم دکیل صاحب موصوف جسکو میں اپنے بڑے بھائی کا درجہ دیتا ہوں اور طارق بن ولی جسکو میں اپنا بیٹا سمجھتا ہوں، دونوں باپ بیٹے کو عقیدت و محبت کا سلام پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس خا ندان کو سلامت رکھے اور ہمیشہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
آمین