Site icon Daily Chitral

’’ حقیقی حکمرانی‘‘……محمد جاوید حیات

مسجد نبویﷺکا کچا فرش،گرمی،تپش،ایک بڑی امت کی فکر،ایک وسیع علاقے کا کنٹرول،۱۳لاکھ مربع ایکڑ زمین ،عرب تا عجم وسیع علاقہ۔۔وہاں کی پیداوار،باشندے، جعرافیہ،الگ تہذیبیں ،بودوباش،نیا دین ،نیا قانون۔۔۔۔لاگو بھی کرناہے ۔۔ذہنوں کو بنانا بھی ہے۔۔نظریات بدلنا بھی ہے۔۔ایک کڑی میں پرونا بھی ہے ۔۔ایک قانون کے شکنجے میں لانا بھی ہے ۔۔ایک پیچ پہ لانابھی ہے ۔۔ان کا کردار بنانا بھی ہے ۔۔ان سب کی فکر کرنی ہے ۔۔مگر مسجد کے کچے فرش پہ بیٹھ کر۔۔چند اکابریں ،بڑی بڑی پگڑیاں ،آنکھوں میں چمک،شیروں کا دل ،دل میں صرف اللہ کا خوف،دنیا کی کوئی آرزو نہیں ،کوئی پروٹوکول نہیں ،کوئی تواضع نہیں ،۔۔بھوک پیاس کب کی شکست کھا چکی ہیں ۔۔تن پہ واجبی لباس ۔۔شان شاہی کا دور دور تک کوئی خو بو نہیں ۔۔قرآن عظیم الشان کی روشنی ۔۔فخر موجوداتﷺ کی حیات پاک کی روشنی۔۔سب کی ایک فکر ۔۔امت کی فکر۔۔ان کے لئے کھانے کا بندوبست مگر نا جائز نہیں ، حرام نہیں بلکل حلال جائز۔۔۔ان کی پوشاک کا بندوبست مگر جائز۔۔۔ان کی سماجی مصروفیات مگر قران کی روشنی میں ۔۔خدانخواستہ قرآن سے سر مو انخراف ہو ۔۔سنت نبویء ﷺ کے خلاف ہو ۔۔حقوق کی فکر بلکہ انسانوں کو چھوڑ کر کتوں کی فکر۔۔۔کچے فرش پہ بھیٹے ہیں ۔۔۔بڑا مسلہ آتا ہے ۔ارد گرد دشمناں خدا دشمنی میں مصروف ۔۔دنیا کے سپر پاور ٹھکرانے کو تیار۔۔روم کی مہم ۔فارس کی طرف مہم ۔۔حاضریں محفل میں سے سب شوق جہاد اور ذوق شہادت سے سرشار۔۔سفر پہ جانے کو تیار۔۔۔کوئی اجنبی آئے سمجھ نہ پائے کہ آقا کون غلام کون؟۔۔۔خلیفہ اپنا وظیفہ
ایک معمولی مزدور کی اجرت کے برابر رکھے۔۔خلیفہ اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے سزا دے۔خلیفہ اپنے زاتی مخافظ رکھنے سے مسلسل انکاری ہو ۔۔خلیفہ شیر خدا ہو مگر اپنے حصے کی بوٹیاں مسافر کو کھلا کر مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر خالی شوربے میں روٹی بگھو کر کھائے۔۔ادھر سپر پاورز لرزہ براندام ہوں ۔فتخ پر فتخ ہوں ۔۔اللہ کا دین پھیلے ۔۔اللہ کے نام کا بول بالا ہو۔۔عدالت اللہ والی ۔۔سیاست اللہ والی ۔۔نیابت اللہ والی ۔۔۔ریاضت اللہ والی ۔۔خدمت اللہ والی ۔۔زندگی اللہ والی ۔۔۔حقیقی شاہنشاہی یہی ہے ۔۔خاک میں رہ کر خاک سے برتر۔۔زندگی کے سمندر میں رہ کر اپنے آپ کو بچانا۔۔۔ہم حکمرانی میں ناکام کیون ہیں ؟اس لئے کہ ہمارے ہاں ’’سوز درون‘‘نہیں ہے ۔سماج کی فکر قوم کا غم نہیں ہے ۔۔ہم اس کام کو ’’اضافی کام‘‘سمجھتے ہیں ۔۔ایم پی اے اپنی شان بڑھاتا ہے اپنی خدمت نہیں بڑھاتا۔۔وہ خدمت کا ’’درد‘‘سینتے میں اٹھا کے نہیں پھرتا ۔جب ملک کا حکمران سینے میں خدمت کا درد اٹھائے پھرے گا تو یوں ہوگا کہ گاڑی میں جاتے ہوئے اگر کہیں سے گاڑی جول کھائے تو حکمران کے دل میں ہوک اٹھے گا ۔۔’’یا اللہ یہ میرے ملک کی سڑکیں خراب کیوں ہیں ؟‘‘راستے میں چھاپڑی فروش بچے کودیکھ کر خود اپنے بچے یاد آئیں گے۔۔ٹوپی فروش بوڑھے کو دیکھ کر خود اپنا بوڑھا پن یاد آئیگا۔۔راج مزدور کو دیکھ کر آپنی آخرت یاد آئیگی۔۔۔اپنے گھر میں بجلی بند کرکے سوئے گا کیونکہ باہر لوڈشیڈنگ ہے ۔۔عدالت میں انصاف کی خبر لے گا۔۔پولیس کو خوف آخرت یاد دلائے گا۔۔وزیر تعلیم تڑپ اٹھے گاکہ کہیں اس کے کسی سکول میں کام کمزور تو نہیں ۔۔قوم کے نونہیال درست تربیت پا بھی رہے ہیں کہ نہیں ۔۔محکم صحت میں صفائی ہے کہ نہیں ۔۔یہ سب زمہ دار تڑپ تڑپ جائیں ۔تو خدا کی قسم اس طرز حکمرانی میں مزہ ہے ۔۔لاپرواہی میں کیا لطف ہے ۔۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔حکمران جو ہمہ وقت مخلوق کی خدمت میں لگے رہیں ۔۔خوشحالی ان کا مقصد ہو ۔۔خود نہ کھائیں دوسروں کو کھلائیں ۔ایسے حکمرانوں کیلئے ’’ایوان ‘‘کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وہ اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوتے ہیں ۔ان کی حفاظت اللہ کرتا ہے ۔ان سے محبت کی جاتی ہے ۔۔وہ خالی فرش پہ قوم کا درد لئے بیٹھتے ہیں ۔وہ گرمی ،سردی بھوک پیاس سے ماؤرا ہوتے ہیں ۔وہ خدمت کو اپنی عظمت سمجھتے ہیں ۔وہ خدمت سے مطمین ہوتے ہیں ۔وہ خدا سے ڈرتے ہیں رعایا کے حقوق سے ڈرتے ہیں ۔ان کے کندھے زمہ داریوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہوتے ہیں ۔وہ اٹھلاکے نہیں چلتے اپنے انجام کو سوچ کر سر جھکا کے چلتے ہیں ۔یہی حقیقی حکمران ہوتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے تخفہ ہوتے ہیں ۔۔’’سیاست ‘‘کوئی معمولی چیز نہیں ۔یہ انسانیت کی حالت زار سدھارنے کی ’’سائنس ‘‘ہے ۔اس کی وجہ سے جب عزت ملتی ہے تو بڑی شان رکتی ہے ۔۔جس کا مقابلہ کوئی سائنسدان،کوئی انجنئیر ،کوئی ٹیکنوکریٹ نہیں کرسکتا۔۔اس کو اقتدار کا تاج کہا جاتا ہے ۔جو سیاست دان دوسروں کو بھول جاتا ہے وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے سب کو بھول جاتا ہے ۔۔اس لئے حقیقی حکمرانی کا تاج سر پہ نہیں رکھ سکتا ۔۔۔حضرت امیر مغاویہؓ اپنے زمانے کے مشہور عالم دین سے پوچھاکہ ’’باہر دنیا کا کیا حال ہے ؟۔۔عالم نے کہا جو تیرا حال ہے وہی باہر دنیا کا حال ہے۔۔ہم’’سٹریٹ پالیٹس ‘‘کو پروپگنڈا کہتے ہیں حلانکہ یہ ’’خاموش خدمت‘‘ہے یہی کسی سیاست دان کا تعارف ہے ۔اسی خدمت کے عوض اس کو اقتدار کا تاج خدا کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے ۔ اسی خدمت کی وجہ سے وہ نمائندگی کا اہل ہوتا ہے ۔۔اسی خدمت کی وجہ سے وہ دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے ۔اسلام کا تو معیار ہی یہی ہے اس کے علاوہ دنیا کے جتنے بھی عظیم حکمران گزرے ہیں ان کا معیار بھی یہی خدمت اور خدمت کا درد ہے موزیتنگ،گوشویرا،لوٹھر اسی فہرست میں شامل ہیں خدمت کی وجہ سے وہ یاد کئے جاتے ہیں ان کے پاس خوف آخرت کا تصور نہیں تھا مگر خدمت کرنا ان کا جذبہ تھا ۔۔آج بھی تعجب سے اور سر دھن کے اس حکمران کا نام لیا جاتا ہے جو اپنی گاڑی میں خود تیل ڈالتا ہے ۔سائکل میں دفتر جاتا ہے اپنے بچوں کو لے کر پیدل چلتا ہے ۔۔کرائے کے مکان میں رہتا ہے ۔۔۔کاش حقیقی حکمرانی کا راز کوئی پا سکے۔۔۔۔
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود را دید او محروم شد

Exit mobile version