Site icon Daily Chitral

نگاہ ہو گئی ۔۔۔۔۔سید شاہد عباس

کرم کی نگاہ مانگنے والے پہ کرم کی نگاہ ہو گئی۔۔۔ وہ قوال تھا۔۔۔ ایک سنگر تھا۔۔۔ یا موسیقار۔۔۔۔ اس بحث میں الجھے بناء صرف معروضی حالات کا جائز ہ لیں تو آپ یہ کہنے پہ مجبور ہو جائیں گے کہ “نگاہ ء کرم ہو گئی”۔ یہ فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے کہ حلال و حرام کیا ہے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ لاکھوں کے سمندر میں کوئی تو نیک بخشش کا وسیلہ بنا ہو گا۔ کوئی تو ایک لاکھوں کے مجمعے میں ایسا ہو گا جو اگر گناہ ہوں بھی تو ان کی معافی کا سبب بنا ہو گا۔ دیہاتوں میں بزرگ اکثر کہتے سنے جاتے ہیں جنازے میں شامل کسی ایک نیک انسان کے اٹھے ہاتھوں کے وسیلے سے مرنے والے کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ جہاں تعداد کا شمار نہ ہووہاں کجا بحث، کجا تنقید، کا توصیف۔
تاریخ کا واحد جنازہ دیکھا کہ بڑی بڑی ہستیاں فخر سے سیلفیاں لے رہی تھیں اور ان سیلفیوں کو مقبولیت کا ذریعہ بنائے بیٹھی تھیں۔ توصیف والے صف بندی کیے ایک طرف افسردہ تھے۔ تنقید والے دوسری جانب غم کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ برادرم بدر فرماتے ہیں کہ وہ کوئی پاپ سنگرنہیں تھا اور یہی اس کا جرم تھا۔ یہ ایک حیران کن جنازہ تھا کہ جس کو روشن خیال بھی اپنی کامیابیوں کا زینہ بنا رہے تھے اور قدامت پسند بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے۔ صد افسوس کہ وہ مر کر بھی لوگوں کی کامیابی کی ضمانت بنتا جا رہا ہے۔ کچھ فیس بکی دانشور دبی دبی سی مخالفت کرتے بھی نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کے جنازے ، اس کی شہادت، اس کی لہولہان تصاویر لگا کرلائیکس، شیئر اور رائے خرید رہے ہیں۔ جی ہاں خرید رہے ہیں کیوں کہ عام آدمی امجد صابری کی تصاویر کو اس انداز سے شیئر کر رہا ہے جیسے وہ کوئی بہت بڑا راہنما ہو۔ وہ جیسا تھا ، رب بہتر فیصلہ کرنے والا ہے لیکن جس کی موت پہ نبی صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی مدحت کے ترانے گونجنا شروع ہوجائیں اس کی بخشش کی دعا نہیں معلوم کرنی بھی چاہیے یا اس کی حمد و ثناء کا واسطہ دے کر اپنی بخشش کا سامان کرنا چاہیے۔
سمجھ نہیں آتا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے۔۔۔ ناچنے گانے والے الگ سوگ منا رہے ہیں فتاویٰ کے مراکز، رشد و ہدایت کے گڑھ، پیرو عالم الگ سے آنسو بہا رہے ہیں۔ کہیں کوئی کھلاڑی کھڑا آنسو ؤں سے خراج پیش کر رہا کہیں حفاظ آنسوؤں سے تر دعا میں ہاتھ بلند کیے ہوئے ہیں۔ وہ تمام عمر تاجدارِ حرم سے نگاہء کرم مانگتا رہا۔ اور نگاہء بھی ایسی ہوئی کہ کوئی آنکھ ایسی رہی نہیں جس میں آنسو نہ ہوں۔ وہ مر کر بھی وہ کام کر گیا جو زندہ صدیوں میں نہیں کر سکتے ۔ وہ بلا تفریق عقیدہ، رنگ و نسل ہر ایک کے لب پہ آقا کی نعتیں جاری کر گیا۔ کوئی تصویر ہو ، کوئی پوسٹ ہو، کوئی خبر ہو، الیکٹرانک میڈیا کی کوئی رپورٹ ہو، کسی کا بھی آغاز اس کی پڑھی گئی نعتوں کے اشعار کے بناء نہیں ہو رہا۔ ہماری اب کیا اوقات کہ اس کے ٹھیک یا غلط ہونے کی بحث کریں جو سانسوں کی ڈور ختم ہونے کے بعد بھی اپنے نام سے آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی نعتیں لوگوں کے منہ سے پڑھوا رہا ہے۔ لوگ اس کو خراج بعد میں پیش کر رہے ہیں پہلے نعت پڑھ رہے ہیں۔ جوزندگی کی بازی ہار کے بھی ثناخوانی کر رہا ہوکہاں اس کا رتبہ کہاں ہماری ناقص عقل۔
اُس کو صلہ سیلفیاں بنانے، ویڈیوز بنانے والوں نے کیا دینا ہے یہ اس کا اور ربِ کریم کا معاملہ ہے ، وہ اُس محبوب ہستی کی مدحت کرتا رہا جس کا ذکر خود اللہ عزو جل نے بلند کیا۔ اور یہی اس کی بخشش کا وسیلہ بھی میرا رب بنا دے۔ کیوں کہ ربِ دو جہاں کسی کا احسان نہیں رکھتا۔ وہ مر کر بھی امر ہو گیا کہ جو لوگ اس پہ اب بھی تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں کم از کم اُس کا ذکر تو ان سے چمٹ سا گیا ہے۔ بس اس سے تھوڑی سی غلطی پہچاننے میں شاید ہو گئی کہ وہ جو کہتا تھا کہ میرے قرب میں بسنے والے چھینکنے پہ چلے آئیں گے ۔وہ آئے لیکن وہ اس کے لاشے کی ویڈیوبنانے میں دلچسپی زیادہ لیتے رہے۔ وہ اس کے گال تھپتھپانے کے بجائے اوپر نیچے ہو کر اس کے لاشے سے بہتے خون کی تصاویر بناتے رہے۔ جیسے وہ کوئی ایسا منافع بخش مال ہو جس کو ٹھوک بجا کے دیکھا جا رہا ہو۔
اُس کے اپنے تو اس بحث میں الجھ گئے کہ وہی شہید ہے یا ہلاک لیکن اغیار نے اس کو شہید مان لیا(وکی پیڈیا)۔ اُسی کی تصاویر کو شہرت کا ذریعہ بنانے والے جہاں اُسے گانے بجانے والا ثابت کرنے پہ تلے نظر آتے ہیں وہیں اس کی پڑھی گئی نعتوں نے ایک روحانی سماں سا باندھ دیا ہے۔ ایسے ایسے بدیسی لوگوں کے لبوں پہ اس کے ذکر سے ہی نعت کے الفاظ آ جاتے ہیں جو صرف نام کے ہی مسلمان ہیں۔ کیا یہ اس کی کامیابی نہیں کہ وہ خود تو چلا گیا لیکن اللہ کے محبوب صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا ذکر بلند کر گیا۔ جب اُس کی لاش پہ چھینا جھپٹی جاری تھی تو قدرت بھی شاید مسکرا رہی ہو گی کہ عاشق رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم تو ہوتے ہی ایسے کہ زندگی میں طعنوں سے نوازے جائیں سانس رکے تو لوگ بوسے دینے پہ لڑیں۔ آقا صلی للہ و علیہ و آلہ وسلم جب اس کی قبر میں آئے ہوں گے تو وہ مسکرایا ہو گا کہ آقا صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم آپ نے مجھ پہ کیا خوب نگاہء کرم کی ہے کہ جو تنقید بھی کر رہے تو میرا ذکر آپ کی نعت کے ساتھ جوڑے بنا بات نہیں کرتے ۔
یقیناً نگاہء کرم اس پہ ہو گئی ۔

Exit mobile version