Site icon Daily Chitral

ارسون میں ہولناک سیلاب کی تباہ کاریاں؛ 31 افراد جان بحق ہوگئے/نظام زندگی درہم برہم

چترال (نمائندہ ڈیلی چترال) گذشتہ رات تحصیل دروش کے دورافتادہ سرحدی وادی ارسون کے گاؤں پائیتاسون گول میں آنیوالے سیلاب نے اپنے پیچھے غم والم کی داستان چھوڑدی۔ تفصیلات کے مطابق تحصیل دروش کے دورافتادہ وادی ارسون کے گاؤں پائیتاسون گول میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات آنیوالے سیلاب سے تباہی کے تازہ معلومات سامنے آئے ہیں جنکے مطابق اس تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں کم ازکم 31افراد جان بحق ہو گئے جنمیں ایک ہی خاندان کے 6افراد شامل ہیں۔ ایک متوفی کو آج 13600222_1301991856497196_181739386080594212_nدوپہر کے وقت ارسون میں سپرد خاک کردیا گیاجسکے نماز جنازہ میں ضلع ناظم مغفرت شاہ نے بھی شرکت کی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق لاپتہ افراد میں سے دو کی لاشیں ارندو کے مقام پر دریائے چترال سے نکالی گئی ہیں جبکہ کم از کم 19لاشیں افغانستان کے صوبے کنڑ کے گاؤں ناڑے میں دریائے چترال سے نکالی گئی ہیں جنہیں وہاں سے لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گاؤں میں 19گھر مکمل تباہ ہوگئے ہیں جبکہ 27گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ گاؤں میں موجود ایک مسجد، ایک دینی مدرسہ اور کم از کم چھ دکانیں اور کئی ایک مویشی خانے صفحہ ہستی سے مکمل مٹ گئے ہیں۔ اسکے علاوہ درجنوں مال مویشی بھی سیلاب برد ہو گئے جن میں پاک فوج کے اے ٹی برانچ کے 23خچر بھی شامل ہیں۔ سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر زرعی اراضی اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ بڑی تعداد میں درختیں جڑوں سے اکھڑ گئی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے پاک آرمی کا ایک چیک پوائنٹ بھی تباہ ہو گیا جسکے نتیجے میں ایک حوالدار اور ایک سپاہی سمیت 6فالورز جان بحق اور چار زخمی ہو گئے ہیں۔ علاقے میں پینے کے صاف پانی کے ذرائع اور آبپاشی کے نظام اور ذرائع مواصلات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اتوار کی شام چار بجے تک سرکاری سطح پر کسی قسم کے امدادی سامان علاقے میں نہیں پہنچائے گئے تھے تاہم ابتدائی طور پر پاک فوج کی طرف سے امدادی سرگرمیوں کے علاوہ لاپتہ افراد کی تلاش کی کوششیں بھی کی گئیں جبکہ فوج کی طرف سے متاثرین کو راشن بھی مہیا کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے امدادی سامان اتوار کی شام پانچ بجے ارسون پہنچائے گئے جن میں ٹینٹ اور راشن وغیرہ شامل ہیں۔ ارسون کے سانحے میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد جان بحق ہو گئے جن میں میاں بیوی، تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ شہید ہونیوالے مسجد میں امام مسجد سمیت پندرہ افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔سیلاب کی شدت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں فٹ بلندی پر موجود مکانات آناً فاناً بہہ گئے کیونکہ سیلابی ریلے کی اونچائی سینکڑوں فٹ تھی جس نے ہر ایک چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔
سیلاب سے اْرسون گاؤں میں جان بحق ہونے والوں میں علیم اللہ ، نعیم اللہ ، محب اللہ پسران گل زرین ، عبد اللطیف ولد خان محمد ، شفیق ولد سید محمد ، ذاکر ولد عزیزاللہ ، نور محمدولد نور اسد، عبدالسلام ،ذاول پسران گل محمد 8فوجی جوان اور کچی نسار گاؤں میں عثمان ، زوجہ عثمان اور اْسکے چار بچے سمیت مجموعی طور پر 31افراد جان بحق ہو گئے ہیں جن میں 6خواتین اور پانچ بچے بتائے جاتے ہیں تاہم بعض ناموں کا اندارج جاری ہے۔ جان بحق ہونے والوں میں سے 18افراد کی لاشیں دریائے چترال سے نکال لی گئی ہیں جن میں سے 13 لاشیں افغان علاقہ ناڑئے سے نکالی گئیں۔ ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ، ڈی پی او آصف اقبال، پاک آرمی کے کرنل وقار چیمہ اور مختلف سرکاری اداروں کے سربراہان نے علاقے کا دورہ کیا جبکہ ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ ، ایم این اے شہزادہ افتخار الدین، ایم پی اے سلیم خان نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور متاثرین کیساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد سے علاقے میں شدید خو ف و ہراس پایا جاتا ہے اور لوگ انتہائی صدمے کی حالت میں ہیں۔ چترال پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماضی میں اس علاقے میں ایسا سیلاب کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ اسوقت تک انہیں کسی قسم کا امداد نہیں پہنچا ہے اور وہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ سیلاب نے بھاری مقدار میں قیمتی لکڑی بھی بہا لے گیا جنکی کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے۔ اْرسون وادی سے آنے والے سیلابی ریلے نے زیرین علاقے ’’نگر‘‘ کے مقام پر دریائے چترال کے بہاؤ کو بری طرح متاثر کرکے اسے ایک بڑے جھیل میں بدل دیا اور پانی کی سطح بلند ہونے سے اور نگر کا پورا علاقہ بشمول قلعہ نگر جھیل کے پانی کی لپیٹ میں ہے اور کئی مکانات مصنوعی جھیل میں ڈوب گئے ہیں اور اس ائریے میں باغات و زمینات کا کٹاؤ شروع ہو گیا ہے۔ اْرسون میں سیلاب سے بچ جانے والے افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں ۔ ابتدائی طور پر ارسون میں تعینات پاک آرمی کی طرف سیمتاثرین کو فوری طور راشن مہیا کئے گئے جبکہ فوج کے جوان امدادی کاموں میں بھی مصروف ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اتوار کی شام کم از کم 50ٹینٹ اور 150فوڈ راشن پیکج علاقے میں پہنچائے گئے ہیں جنہیں متاثرین میں تقسیم کیا جائیگا۔ انتظامیہ ذرائع کے مطابق متاثرین کے لئے نقد امداد کا بھی اعلان کیا گیا ہے اور جان بحق افراد کیلئے فی کس تین لاکھ روپے دئیے جائینگے اور امدادی چیکوں کی تقسیم پیر کے روز کی جائیگی
ہمارے نمائندے دورے کے دوران دیکھا گیا کہ ابتدائی اور فوری طور پر امداد کی فراہمی میں پاک فوج کے علاوہ غیر سرکاری ادارے الخدمت فاؤنڈیشن اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سرگرم عمل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے ابتدائی طور پر متاثرین میں اب تک 50فوڈ پیکج ،30بسترے،50 ترپال ، 10گھرانوں کیلئے کیچن برتن اور بڑی مقدار میں میڈیسن فراہم کئے۔ ڈپٹی کمشنر چترال اْسامہ احمد وڑائچ نے 28ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ جبکہ دیگر ذرائع 31ہلاکتیں بتا رہے ہیں۔
دوسری طرف نگر کے مقام پر بننے والے مصنوعی جھیل کو کھولنے کے لئے اقدامات کا آغا ز کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر سید مظہر علی شاہ کی قیادت میں ٹیم نے آپریشن شروع کردیا ہے اور بلاسٹنگ کئے جارہے ہیں جسکی وجہ سے قوی امید ہے کہ دریا کا بہاؤ معمول پر آکر جھیل کی سطح بیٹھ جائے گی۔
دوسری طرف تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانستان حکام نے اتوار کی رات گئے 15لاشیں پاکستانی حکام کے حوالے کردی ہیں جنہیں آبائی علاقے ارسون کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے جہاں پیر کے روز انکی تدفین ہوگی۔

Exit mobile version