Site icon Daily Chitral

پھرآگیا ہوں گردشِ دَوراں کو ٹال کے۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

کپتان صاحب نے ایک دفعہ پھرکھڑاک کردیا ۔ عنقریب سونامیے کنٹینرپر کھڑے خاں صاحب کی زبان سے یہ اعلان مکرر سنیں گے ’’میں چاہتاہوں کہ جلدی نیاپاکستان بن جائے تاکہ میں شادی کرلوں‘‘۔ ہندوستان ٹائم کو انٹرویو دیتے ہوئے کپتان صاحب نے فرمایا’’ دو طلاقوں کے بعدشادی پریقین مذید پختہ ہوگیا ہے ، اب میں تیسری شادی کاسوچ رہاہوں کیونکہ ہمت ہارنامیری فطرت میں نہیں‘‘ ۔ اللہ خیرکرے ، دیکھتے ہیں یہ شادی کتناعرصہ چلتی ہے۔ خاں صاحب کی بے چین فطرت کوئی نہ کوئی گُل توضرور کھلائے گی ۔ ویسے بھی وہ ’’نیاپاکستان ‘‘تو ابھی خواب وخیال ہے جس کادعویٰ خاں صاحب کرتے ہیں اِس لیے اُمیدِواثق یہی ہے کہ تیسری کے بعد چوتھی کی نوبت بھی آئے گی اور پھرشاید پانچویں کی ، ابھی توصرف ہیٹ ٹریک ہوئی ہے ۔ بہرحال کپتان صاحب کو ’’ہیٹ ٹرک‘‘ مبارک ہو ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تاحال اپنی تیسری شادی کااقرار نہیں کر رہے لیکن اندرکی بات جاننے والے تویہی کہتے ہیں کہ خاں صاحب شادی کرچکے ۔ نوازلیگئے کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کودہرا رہی ہے ، ریحام خاں سے نکاح کے بعدبھی وہ لیت ولعل سے کام لیتے رہے تھے ۔ اب بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ اُن کی شادی کی خبریں بے بنیادہیں ، وہ جب شادی کریں گے تو ’’گَج وَج‘‘ کے کریں گے اورعوامی جشن منائیں گے۔ ہمارایہ شرارتی الیکٹرانک میڈیا’’ایویں خوامخواہ‘‘ اُنہیں بدنام کر رہاہے ۔ وہ تومانیکا فیملی کی کسی بشریٰ کوبھی ڈھونڈ لائے ہیں جس نے خاں صاحب کوانگوٹھی دی ہے ۔ دراصل عمران خاں نے پاکپتن میں اچانک تین بارنجی دَورے کیے جہاں وہ کسٹم آفیسر میاں خاور فرید مانیکا کے گھر ٹھہرے ۔ میاں خاورفرید کی اہلیہ بشریٰ مانیکامسائل کے حل کے لیے روحانی وظائف بتاتی ہیں۔ اُنہوں نے عمران خاں کو ایک انگوٹھی دَم کرکے دی جو عمران خاں نے پہن لی ۔ بشریٰ مانیکاکی بہن مریم شادی شدہ ہیں جو دبئی میں اپنے شوہرکے ساتھ خوش وخرم زندگی گزاررہی ہیں البتہ جس مریم کاتذکرہ سوشل میڈیاپر زوروشور سے جاری ہے وہ بصیرپور سے تعلق رکھنے والی مریم وَٹوہیں جس کی مولانا عبدالستار ایدھی کے جنازے سے اگلے دِن عمران خاں کے ساتھ لندن میں نکاح کی افواہیں گرم ہوئیں۔ مریم وٹوکی کچھ عرصہ قبل طلاق ہوئی اورآجکل وہ ایک خلیجی ریاست کے تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کہتے ہیں کہ عمران خاں نے اُنہیں دو ماہ پہلے ہی شادی کے بارے میں بتا دیاتھا ۔ اُدھر قندیل بلوچ نے بھی ’’سیاپا‘‘ ڈال دیاہے ۔اُسے جب کپتان صاحب کی شادی کاپتہ چلاتو وہ رو ، رو کر بے حال ہوگئی ۔ وہ کہتی ہے کہ وہ تو کپتان صاحب کی خاطر سب کچھ تیاگ دینے کو تیار تھی لیکن اُنہوں نے توشادی ہی رچالی ۔ اُدھر مفتی عبدالقوی بھی ’’اندرواندری‘‘ خوش ہوں گے کہ چلو ایک رقیبِ روسیاہ سے تو جان چھُوٹی، اب اُن کے اُمیدکے رشتے ایک دفعہ پھرقائم دائم ہوچکے ہوں گے ۔ ویسے بیچارے مفتی صاحب کے ساتھ ہوئی بہت بُری ، رویتِ ہلال کمیٹی سے نکال دیئے گئے اورقندیل بلوچ بھی اُن کے ساتھ سیلفیاں بناتے بناتے ’’پھُر‘‘ ہوگئی ۔ مفتی صاحب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ
خُدا ہی مِلا نہ وصالِ صنم
اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اِس سارے معاملے کی پُراسراریت کابھی کھوج لگانا ضروری ہے کہ آخرخاں صاحب کودھرنوں کے موسم ہی میں شادی کاخیال کیوںآتا ہے؟ ۔ نوازلیگئے توخوش ہیں کہ خاں صاحب اب شادی کے چکروں میں ’’گھَن چکر‘‘ بن کردھرنے شرنے بھول جائیں گے ۔ ہمیںیاد آیاکہ ایک ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مولانا فضل الرحمٰن کے والدِ گرامی مولانامفتی محمود سے سوال کیا’’مولانا ! سُناہے کہ جب حضورِاکرمؐ معراج پرتشریف لے گئے تواللہ تعالےٰ نے پہلی بارسارے دِن کی نمازیں اورپورے سال کے روزے فرض کیے تھے‘‘۔ جب مولانامفتی محمودنے اثبات میں سَر ہلایا توبھٹو مرحوم نے بڑی حسرت سے کہا ’’کاش کہ ایسا ہوجاتا، آپ لوگ نمازوں اور روزوں میں مشغول رہتے اورہم چین سے حکومت کرتے‘‘۔ نوازلیگئے بھی یقیناََُ جکل یہی سوچتے ہوں گے کہ کاش کپتان صاحب یونہی شادیاں ’’پھَڑکاتے‘‘ رہیں اور وہ چین سے حکومت کے مزے لوٹتے رہیں لیکن ایساہونا ممکن نہیں کیونکہ کپتان صاحب کی بے قرار روح نہ خودچین لیتی ہے نہ کسی کولینے دیتی ہے ۔ اِدھر میاں نوازشریف 48 روزہ طویل وقفے کے بعدجاتی اُمرا لوٹے اوراُدھر کپتان صاحب نے میمنہ میسرہ تیارکرنے کاحکم دے دیا۔
میاں صاحب کے پاکستان لوٹتے ہی سیاسی سرگرمیوں میں یکلخت ہلچل سی مچ گئی ہے ۔ اپوزیشن نے بھی لنگوٹ کَس لیے ہیں۔ شیخ رشیداور اعتزاز احسن کی بھی شدیدترین خواہش اور کوشش کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلاول زرداری کوکپتان صاحب کے کنٹینرپر چڑھادیا جائے لیکن پیپلزپارٹی مخمصے کاشکار ۔ مخمصہ یہ کہ کہ اگر پانامہ پیپرزپر سڑکوں پر نہیں نکلتے تواگلے الیکشن میں کوئی اُن کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا اوراگر نکلتے ہیں توکہیں سارا کریڈٹ تحریکِ انصاف سمیٹ کرنہ لے جائے ۔ ویسے بھی نوازلیگ کی مخالفت میں کپتان صاحب جن انتہاؤں کو چھوسکتے ہیں ، اُس کے بارے میں پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعت کبھی سوچ بھی نہیں سکتی ۔ مخمصے کاشکار تووزیرِاعظم صاحب بھی ہیں۔ اگروہ کہتے ہیں کہ دِل کے چار ، چار بائی پاس کروانے کے بعد وہ فِٹ بلکہ سُپرفِٹ ہوکر لوٹے ہیں تو مخالفین ’’رَولا‘‘ ڈال دیتے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہے اُن کاتوکوئی بائی پاس ہواہی نہیں ۔ اگرکہا جاتاہے کہ اُن کی بیماری سنجیدہ نوعیت کی ہے توپھر اُنہیں مشورہ دیاجاتا ہے کہ وہ آرام کریں اوروزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں کسی اورکے سپرد کردیں ۔ میاں صاحب فی الحال توخاموش ہیں لیکن یہ طے ہے کہ وہ عنقریب حریفوں کو مُنہ توڑجواب دینے کے لیے میدان میں اُتریں گے کیونکہ گھبرا کے میدان چھوڑدینا اُن کی سرشت میں نہیں ۔
اگلے چندہفتوں میں جومنظر نامہ نگاہوں کے سامنے گھوم رہاہے وہ بہرحال ملک وقوم کے حق میں
ہوسکتا ہے نہ پیپلزپارٹی یاتحریکِ انصاف کے حق میں کیونکہ اِس کامنطقی انجام تومارشل لاء کی صورت میں ہی سامنے آسکتاہے ۔ ویسے بھی ہمارے جمہوریت پسند لیڈران آٹھ دَس سال بعد جمہوریت سے ’’اوازار‘‘ہوجایا کرتے ہیں اور اتنی مدت توگزر چکی ، یہ الگ بات کہ جمہوریت پسند جنرل راحیل شریف ’’طرح‘‘ دے جائیں وگرنہ خوش آمدیدی پوسٹر ، بینرتو آویزاں ہوچکے ۔ اگر سپہ سالار نے آنے کا ارادہ نہ باندھاتو پھرتحریکِ انصاف جیسی دَس سیاسی جماعتیں مِل کر بھی حکومت کاکچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

Exit mobile version