Site icon Daily Chitral

خواتین کے لیے مساجد…. تحریر: امیرجان حقانی

گزشتہ پانچ سال سے مجھے مسلسل سفر درپیش آرہے ہیں۔ بالخصوص سیاحتی و تفریحی اور پبلک مقامات پر زیادہ آنا جانا ہوتا ہے ۔ملک بھر سے ان مقامات پر لوگ اپنی فیملز کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاحتی و تفریحی اور پبلک مقامات پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ، تاہم جس چیز کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے وہ ملک بھر کے شاہرات ، تفریحی مقامات، پبلک پلیسس، شاپنگ سنٹرز اور سرکاری و غیرسرکاری محکموں، بڑے بڑے ہوٹلوں اور پارکس میں خواتین کے لیے طہارت خانے اور نماز کی آدائیگی کے مقامات کی عدم موجودگی ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان جیسے دیندار معاشرتی ملک میں بھی خواتین کے ساتھ یہ زیادتی سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہ طہارت اور قضائے حاجت جیسی بنیادی ضرورت اور نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی کے لیے خواتین کو اتنا کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے اور غفلت برتی جاتی ہے۔ ائندہ سطور میں ہم اس کا جائزہ لیں گے کہ اسلام میں اس کے کیا احکام ہیں اور پھر موجودہ دور میں ان تمام مقامات پر طہارت خانے اور نماز پڑھنے کے لیے جگہیں اور مساجد میں خواتین کے لیے الگ جگہ کا ہونا کتنا ضروری ہوگیا ہے۔
عمومی طور پر گزشتہ کئی صدیوں سے خواتین کو مسجد سے دوررکھا گیا ہے تاہم قدیم مفکرین اور فقہاء نے بھی خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔مخصوصشرائطکےساتھخواتینمسجدمیںنمازکیلئےجاسکتیہیں،تاہمانشرائطمیںمحرمکاساتھہوناشاملنہیںہے،چنانچہبغیرمحرمکےمسجدمیںجانےمیںکوئیحرجنہیںہے۔اورمردحضراتاپنیبیویوںکومسجدمیںنمازاداکرنےکیاجازتمانگنےپرمنعنہیںکرسکتے،بشرطیکہخواتینپردہمیںہوں،اورانکےجسمسےکوئیایسیجگہنظرنہآئےجسےاجنبیلوگوںکیلئےدیکھناجائزنہہو۔
ابنعمررضیاللہعنہماکیروایتہےکہ : “میںنےرسولاللہصلیاللہعلیہوسلمکوفرماتےہوئےسناکہ ”جبتمہاریبیویاںمسجدمیںجانےکیاجازتمانگیںتوانہیںاجازتدےدو”۔ اسی طرح کی کئی روایات ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ خواتین کوعمومی حالات میں بھی مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت ہےتاہم گھرمیں نماز پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔تاہمامتدادِزمانہکیوجہسےجبحالاتبدلگئےاور کچھ مشکلات پیش آئی توحضرتعمرفاروقرضیاللہعنہنےصحابہکرامکےمشورہسےعورتوںکامردوںکےساتھمسجدمیںباجماعتنمازپڑھنابندکردیا۔انتہائیمخصوصحالاتکیوجہسےیہپابندیعائدکیگئیتھی۔
یہاں یہ ذہن میں رہے کہ خواتیناگربےپردہہوںاوراسکےجسمکاایساحصہعیاںہورہاہوجواجنبینظروںکیلئےحرامہوں،یاخوشبولگائیہوئیہوںتوانحالاتمیںانکیلئےگھرسےباہرنکلنابھیمنعہے،مسجدمیںجاکرنمازاداکرناتوبعدکیباتہے؛کیونکہاسمیںفتنےکاخدشہہے،اورسورۃ النور میںاللہتعالیکافرمانہےکہ”وَقُلْلِلْمُؤْمِنَاتِيَغْضُضْنَمِنْأَبْصَارِهِنَّوَيَحْفَظْنَفُرُوجَهُنَّوَلَايُبْدِينَزِينَتَهُنَّإِلَّامَاظَهَرَمِنْهَاوَلْيَضْرِبْنَبِخُمُرِهِنَّعَلَىجُيُوبِهِنَّوَلَايُبْدِينَزِينَتَهُنَّإِلَّالِبُعُولَتِهِنَّیعنی اوراےنبی ! مومنعورتوںسےفرمادیںکہاپنینظریںجھکاکررکھیںاوراپنیشرمگاہوںکیحفاظتکریں،اپنابناؤسنگھارظاہرنہکیاکریں ۔ مگرجواسمیںسےظاہرہوجائےاوراپنیاوڑھنیاںاپنےگریبانپرڈالےرکھیںاوراپنیزینتظاہرنہکریںمگراپنےخاوندوںکےلیے۔اور اسیطرح بے پردہ گی اور بےحیائی کے حوالے سےدوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میںفرمایا:
”يَاأَيُّهَاالنَّبِيُّقُلْلِأَزْوَاجِكَوَبَنَاتِكَوَنِسَاءِالْمُؤْمِنِينَيُدْنِينَعَلَيْهِنَّمِنْجَلَابِيبِهِنَّذَلِكَأَدْنَىأَنْيُعْرَفْنَفَلَايُؤْذَيْنَوَكَانَاللَّهُغَفُورًارَحِيمًا”(الأحزاب) یعنی اےنبیاپنیبیویوںاوراپنیبیٹیوںاوراہلایمانکیعورتوںسےفرمادیںکہاپنےاوپراپنیچادروںکےپلولٹکالیاکریں،یہبہتہیمناسبہےتاکہوہپہچانیجائیںاورانہیںاذیتنہپہنچائیجائے،اللہتعالیٰبہتبخشنےوالااورنہایتمہربانیفرمانےوالاہے۔ان ایات مبارکہ سے بے پردگی اور فحاشی و عریانی کی ممانعت واضح ہے، اس کا سنجیدگی سے خیال کرنا چاہیے خواتین کو۔
فقہاء کرام نے بھی شرائط کے ساتھ خواتین کو مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ”خواتینخودبھیاوردوسرےلوگبھیفتنےسےمحفوظرہیں۔خواتینکےحاضرہونےسےکوئیشرعیقباحتپیدانہہورہی ہو۔راستےمیںاورجامعمساجدمیںمردوںکےسامنےمتآئیں۔خوشبومتلگائیں۔مکملپردےمیںاوراپنیزینتچھپاکرگھرسےباہرنکلیں۔مساجدمیںخواتینکیلئےالگسےدروازہہو،اوروہیںسےخواتینآئیںجائیں،عورتوںکیصفیںمردوںکےپیچھےہوں۔مردوںکےبرعکسخواتینکیلئےآخریصفبہترہے۔اگرامامنمازمیںبھولچوکجائےتومردسبحاناللہکہے،جبکہعورتہاتھپرہاتھمارے۔مسجدسےخواتینمردوںسےقبلچلیجائیں،اورمردخواتینکےگھروںتکپہنچجانےکاانتظارکریں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ جبخواتیننےانقیودوشرائطکوملحوظنہیںرکھاتواجازتبھیباقینہیںرہےگی،اسبناپرفقہائےاُمتنے،جودرحقیقتحکمائےاُمتہیں،عورتوںکیمساجدمیںحاضریکومکروہقراردیا ہے،گویایہچیزاپنیاصلکےاعتبارسےجائزہے،مگرکسیسببکیوجہسےممنوعہوگئیہے۔اگر حالات و واقعات اور زمانے کی کیفیت اور معاشرت کے طور طریقے بدل جائے تو پھر احکام بھی بدل جاتے ہیں اور تبدیلی اجاتی ہے۔
اگرہم ان تمام دلائل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اج کے دور کا جائزہ لیتے ہیں تو پھر ہمارے ہاں تبدیلیاں بہت زیادہ ائی ہیں۔ ان معاشرتی و سماجی تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ حالات وہ نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے۔آج مسلم معاشرے کے طور واطور مکمل بدل گئے ہیں، ایسے میں عزیمت کے بجائے رخصتوں پر بھی عمل ہوگیا تو بہت بڑی بات ہوگی۔اور وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان پیش آمدہ مسائل کے لیے نئے احکام و مسائل مرتب کیے جانے چاہیے۔ہزار سال پرانی باتوں پر اڑے رہنا کوئی مناسب نہیں۔شریعت اسلام میں اتنی تنگی بھی نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں اب خواتین گھل مل گئی ہیں، عام خواتین کے علاوہ دین دار گھرانوں کی خواتین بھی تفریحی مقامات، شاپنگ سینڑز، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، سفر، پارکس اور تجارتی مراکز وغیرہ میں روزانہ کی بنیاد پرچلی جاتی ہیں۔ لوگ فیملز کے ساتھ ملک بھر کا سفر کرتے ہیں، سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں میں بھی مردوں سے زیادہ خواتین کی تعداد ہوتی ہے۔ پھر ضرورت کی بنا پر لڑکیوں کے مدارس و جامعات بھی بڑی تعداد میں قائم کیے گئے ہیں۔ وفاق المدارس کی حد تک بنین کے مدارس و طلبہ سے بنات کے مدارس و طالبات زیادہ ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بھی خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہیں۔
ایسےمیں ایک افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ان تمام مقامات میں خواتین کے لیے الگ طہارت خانے اور مساجد میں کوئی جگہ نہیں بنائی جاتی ہے۔ اگر محلے کی مسجدوں میں خواتین کے لیے الگ طہارت خانے اور مسجد میں جگہ کا اہتمام نہ بھی کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن ان تمام مقامات پر بننے والی مساجد میں خواتین کے لیے باقاعدہ الگ جگہ کا ہونا ضروری ہے۔ اور ان کے طہارت خانے بھی مردوں سے الگ ہوں۔ اج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ عورتوں کو گھروں میں محصور کرکے رکھا جاسکے۔ اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ خواتین لمبے سفر میں نماز ادا نہ کریں، یا دن بھر ان پبلک مقامات پر نماز نہ پڑھیں بلکہ شام کو گھر جاکر ایک ساتھ نماز پڑھیں۔ اورقضائے حاجت نہ کریں۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ نماز جیسی بنیادی عبادت میں خواتین کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا تمام پبلک مقامات، یونیورسٹیز، تجارتی مراکز، تفریحی پوائٹس اور بالخصوص لمبے راستوں پر بنائی جانے والی مساجد میں خواتین کے لیے مکمل انتظامات ہونی چاہیے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت کے ساتھ دیندار معاشرہ بھی اتنی اہم ذمہ داری سے کیوں غفلت برت رہا ہے۔ہمارے علمائے کرام اور دیگر طبقوں کو بھی اس حوالے سے عامۃ الناس کی درست رہنمائی کرنی چاہیے۔ میں نے اج تک کسی دانشور، کسی کالم نگار ، کسی ٹی وی اینکر، کسی عالم دین اور کسی مبلغ کو خواتین کے لیے ان بنیادی ضروریات پر بات کرتے نہیں سنا۔اور نہ ہی خواتین نے اپنی اس ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے تو نکلتی ہے لیکن ایک انتہائی بنیادی ضرورت کے حوالے سے کوئی اقدامات کے لیے اواز نہیں اٹھاتی۔ہمیں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس کے لیے کام کا آغاز کرنا ہوگا۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Exit mobile version