331

قدیم چترال اورنسل نو……تحریر: پروفیسرشفیق احمد

چترال کومختلف ادوار  میں قشقار(کاشغر) کھو کند ،دردستان اور بلورستان وغیرہ کےحکومتوں کی زیر اثر رہنے کی وجہ سے مختلف  ناموں سے موسوم کیا گیا ہے ۔یہ خطہ پیارے ملک پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہے ،اُسکے شمال مغرب میں آفغانستان کے واخان پٹی ,نورستان اور جنوب مشرقی سمت میں دیر ،سوات اور گلگت کے علاقے واقع ہیں ۔اس اعتبار1

سے دیکھا جائے ، چترال دفاغی لحاظ سےانتہائی اہم جغرافیئے کے حامل وادی ہے۔اسکی  اہمیت آج سے نہیں بلکہ ۲۵۰۰ قبل از مسیح سے آریائی قوم کی آمد بلکہ اس سے بھی  قبل ۴۵۰۰ سوقبل از مسیح دور کےمختلف مقامات میں دریافت ہونے والے قبروں یا  اسے بھی قبل کے زمانے کےاثرات سےلگا سکتے ہیں ۔انسان جتنی بھی کوشش کرے کسی بھی طاقت کے ذریعے سے بی  بی علاقے کے جغرافیائی اہمیت کو کم نہیں کرسکتا ہے۔ ان دنوں بعض عناصرمختلف زاویےسےچترال کی جغرافیائی اہمیت کو کم کرنے،(CPECپاکستان چائینا  اکنامک کوریدور)منصوبے سے شاہراہ کو چترال سے گلگت کی طرف منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ  پڑوسی ملک بھی  اس طرز کی رخنہ  ڈال کر اسی عظیم منصوبے  کوناکام بنانے کی سعی میں مصروف دیکھائی دے رہے رہا ۔لیکن انسان جتنی بھی کوشش کرے اورحقائق سے انحراف کر کے کسی بھی  کام کوسر انجام دینے کے بعد مطلوبہ نتائج اخذ نہیں کر سکتاہے،انشااﷲحقیقت کے سامنے ہر اُس ناپاک عزائم والی طاقت کو منہ کی کھانی پڑے گی۔لہذا ہم تاریخی نقطہ ٔنظر سے اسکی اہمیت کو اُجاگر کر کے دُنیا کو قائل کر سکتے ہیں ۔قدیم زمانے سے آمدورفت کے لئے نشیبی علاقے جھیل اورگلشیئر  سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے پہاڑی راستے استعمال  ہوا کرتے  تھے ۔اس کے لئے مختلف اوقات میں مختلف  قسم کی  گزرگاہیں استعمال ہوتے رہے ہیں ، یہ گزرگاہیں موسمی اورمملکتوں کے جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث  کافی دیر تک زیر استعمال رہنے کے بعد  آجکل بند ہو چکے ہیں ۔چین اور وسط ایشائی ممالک کےدرمیان   انتہائی قدیم  گزرگاہیں بالائی چترال تورکھو  کے مغلنگ ،اجنو گول ،زیور گول،روش گول لٹکوہ کےاکرام پاس اور دوراہ پاس ہی رہ چکے ہیں ۔موسمی تغیرات  کی وجہ سے چیانتر گلیشیئر(چٹی بوئے) کے  پھٹنے  کے  نتیجے میں  بروغل پاس شندور پاس وغیرہ  نئے راستے وجود میں انے کے بعد آمدورفت کی بحالی میں مزید  اسانی پیدا ہوچکی ہوگی کیونکہ اسکی اصل وجہ مشرقی سمت گلشیئرزاور جھیلوں  کی بُہتات   اور مغربی سمت گنجان جنگلات  کی بناءپر آمدروفت ممکن نہیں تھی۔سب سے قدیم آبادی تورکہواور موڑکہو ہی کو  تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بناء پر قدیم زمانے سےآمدروفت کے لئے تورکہو ،موڑکہو اور لٹکوہ کے راستے زیر استعمال رہ چکے ہیں ۔انکے واضح ثبوت قلعوں کے نام سے منسوب  پہاڑوں کی چوٹیوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں  ، ان مِیں  کوتھ نوغور ،نوغورانیٹک ،زومان سور  وغیرہ کے علاوہ زیارتیں،قبریں  اور غاروں کی زندگی کےاثرات نمایاں طور پرآج بھی  موجود ہیں ،البتہ انہی مقامات کےبارے میں  متعلقہ شعبے کی طرف سے  مکمل تحقیق کی ضرورت ہے۔اس ضمن  میں ہمیں   رائین ،برنس اور چیرون  میں جے ورمن بادشاہ کی دورحکمرانی میں (مشرقی نام  بہمن کوہستانی) ایک جیسے کندا کردہ لکھائی، سٹوپا  کی موجودگی و دیگر اثرات ، پہاڑی   گزر گاہوں اوردیہاتوں کے ناموں مثلاًرائین،زائینی،کہوت،چوئیج،رام رام وغیرہ سے وادی کی قدامت کا اندازہ لگانے  میں آسانی پیدا ہو گی ۔اُن گزرگاہوں میں زائینی پاس  کے ذریعے روژ گول تیریچ  کی طرف  قاقلشٹ سے ہوتے ہوئےتورکہو کےمختلف پہاڑوں کے اُپر سے قدیم پیدل راستے اور ریت بجری اور غاروں کے اثرات جگہ جگہ ملتے رہتے ہیں ۔سب سے بڑی  شاہراہ شینجور آن سے اویر کے راستے پرسان کریم آباد سےہوتے ہوئے نورستان کی طرف نکلتا تھا ۔اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ شاہراہ انسانوں کے علاوہ پرندوں کی بھی سب سے بڑی گزرگا ہ ہے ۔موسمی تبدیلی کے باعث نئے وجود میں انےوالے  نشیبی پیدل راستہ کوہ پرئیت کی طرف سے گزرتا تھا ۔ہمیں  ان اثرات سے چترال کی قدامت کے بارے میں اندازہ لگانے میں بہت  آسانی پیدا ہوگی  کہ واقعی  چترال کی آبادی بہت قدیم ہے ۔اس زمانے مِیں قدیم آباد باشندوں کو پاسیچا  یا  داردک کہتے تھے ۔یہ قدیم باشندے آریائی قوم  کے آنے سے قبل اس علاقے میں آباد تھے۔ ان باشندوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انتہائی وحشی قسم کے لوگ تھے شکار کھیلتے تھے،کچے گوشت کھاتے تھے اور غاروں کی زندگی گزارتے تھے بلکہ انسانی گوشت بھی انکا مرغوب غذاتھا۔لیکن انکا بھی کوئی اُصول و قانون تھا  کیونکہ وہ خارجی لوگوں کو پسند نہ کرنااور انکا مقابلہ کرنا جانتے تھے کیونکہ ۲۵۰۰قبل از مسیح میں جب آریائی قوم اس علاقے میں داخل ہوتے ہیں توآریائی  مہذب قوم  کو بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جتنے بھی آرئین  مختلف ادوار میں داخل ہو چکے تھے ،ان میں  سے اکثریت یہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں یا اکثر مقابلے میں مارے جا چکے ہیں ۔اسکا مطلب یہ ہے کہ پیش قدمی کرنے میں دشواری کا سامنا ہو چکا ہے  اور مقامی آبادی پر انکے گہرے اثرات مرتب چکے ہیں ۔

مختلف ادوار میں  آنے والے آریایئ قوم میں  سب سے قدیم نسل کیلاش کی ہے ،جو کئی ہزار سال قبل قدیم طرززندگی و  بودو باش کو اپناتےہوئے  ہنوز زندگی گزار رہے ہیں ،یقینی طور پر  نقش و نگار سے مزئین پوشاک پہنے والے  ،لکڑی پربیل بوٹےسے مزئین پُرتعیش مکان بنا کر رہنے والے اور کھانا پکا کر کھانے والے  باشندوں کو اپنے درمیان پا کر قدیم آبادی ایک عجیب سی کیفیت میں مبُتلا ہو چکی  ہوگی۔بس یہی کیفیت و ا حساس ہی اُنکے حساب میں تہذیب یافتہ قوم ہونے کے لئے کافی ہےکیونکہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے اُن سےبھی کئی ہزار سال قبل  قدیم قوم کی طرز زندگی کس نوعیت  کی ہو گی؟ہو سکتا ہے آریائی قوم  کی طرح  اور بھی اسی دور کے حساب سے  مہذب قوم کے باشندوں کی یلغار ہو چکی ہوگی اور  انہی علاقوں کی تقدیر بدلتی رہی ہوگی اور یہی سلسلہ تا ابد  مختلف شکل میں جاری و ساری رہے گا ۔کیونکہ موجودہ دور میں قوموں کے یلغار کی جگہ معیشت ،کاروبار کی عرض سے   مختلف قسم کے باشندے آتے رہینگے اور علاقے کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ  معیار زندگی میں  نمایاں تبدیلی بھی اتی رہے گی۔لیکن ہمیں کیلاش قوم کی طرح کسی بھی یلغار کے سامنے اپنی تہذیب وتمدن، ثقافت اوررسوم ورواج  کو انکے نیچے دبنے نہیں دینگے ۔بلکہ اپنی تہذیبی،مذہبی ،ثقافتی ،معاشرتی ،تمدنی،لسانی ،بودوباش ،تہواروں اور رسوم و رواج  کو فروغ دے کر ہی اسی جدید دور کے تیز ترین تبدیلی کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔
2کیونکہ کیلاش قوم اپنی روایاتی قدیم زنانہ لباس (بور،پیراہن)کو برقرار رکھ کر اپنی شناحت کو زندہ رکھی ہوئی ہے۔ لہذاکہو قوم اپنے مردانہ لباس شُقہ(چغہ)اور کپوڑ(پکول)کو زیب تن کرکے اپنی شناحت قائم کر رکھی ہے ،لیکن انکی جگہ ان دنوں  چائینا  کے تنگ پتلون اور قسم قسم کے رنگین تنگ شرٹس کے نیچےدب کرسسکنے والی ہے۔ کیونکہ چینی قوم ہر اُس طاقت اور وقت کو موقع و محل کے مطابق استعمال کرتی رہتی ہے ۔کیونکہ امسال یوم آزادی کی تقریب کے لئے ۲۸کے حساب سے ٹن جھنڈے ،بیجز وغیرہ بھیج  کر ہمارے یوم آزادی کی تقریب  میں بھر پور شرکت کی ،کہیں ایسا نہ ہو شاہراہیں بنانے کے بعد پکول ،چغہ بھی  ٹنوں کے حساب سےتیار کر کے سردیوں کے موسم میں   شرکت نہ کر بیٹھے۔ اگر میں  جدیددور کے مشینی چترالی نوجوانوں سے پوچھنا چا ہتاہوں کہ چُغہ اور پکول کونسی چیزسےاور کہاں تیار   ہوتی ہے ؟شاید٪ ۵۰کا جواب  درست بھی آئے ہو سکتا ہے ۵۰٪کا  جواب آئے گا کس چیز سے بنتی ہے البتہ اس کا علم  نہیں؟چائینا میں تیارہو کرآتی ہے———ہمیں اپنے چُغہ اور پکول  کی صنعت کوجدید طریقےسے بھیڑیں  پال کر اُنکے اُون سے ان مصنوعات کوتیا ر کرنےکا ذریعہ پیدا  کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بلکہ یہ قانوں بھی منظور کرواسکتےہیں کہ کسی کباڑ وغیرہ کے کپڑوں سے بنائے گئے چُغہ اور پکول کو چترالی قوم کی پہچان کے ساتھ توہین سمجھ کر  اس پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ہم چائینا ٔسے انگور و دیگرپھل وغیرہ اور پٹی و دیگر مصنوعات برآمد کر کے مست مدہوش ہوکر اپنے آپکو بری الذمہ قرار دے  کر ، اسی  ذمہ داری کو ہم  چائینا اُپر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں  کسی بھی فن سے وابسطہ باپ کا بیٹا تعلیم حاصل  کرنے کے بعد  ،اپنے آباؤاجدادکےپیشے کو اپنا کر کارخانے لگانے کے بجائے اسی پیشے کو خیر آباد کہ کر ترقی سمجھتا ہے۔لہذا ہمیں چاہئے کہ شاہراہیں بنے سے قبل، چائینا اور اسٹریلیا سےنئی نسل کے بھیڑ بکریاں منگوا کر اُنکو حکومتی سطح پر چترال کے مشہور  اور ذرخیز چراگاہوں میں جدید طریقے سے  پالنے کا انتظا م کرا سکتے ہیں ۔  جن گھرانوں میں پٹی بنانے کے چھوٹے کارخانے ہوا کرتے تھے ،انکودوبارہ  جدید الات سے لیس کر کےکار خانے لگانے کے لئے فنڈ مہیاء کی جاسکتی ہے۔ اسکے علاوہ اُون سے بنی چترالی قالین ،دستانے،جُرابییں  ،واسکٹ،کوٹ پتلون ،بنیاں  اور چادر وغیرہ کے علاوہ مختلف نقش ونگار  سےمزئین  بکریوں کے سخت بال سے بنی پیلسک (door mate), رسی اور دیگر مصنوعات بنانے والےلوگوں کو جدید آلات کی فراہّمی کے لئے  رقوم کی بندوبست  یقینی بنائی جاسکے۔اسکے علاوہ ہاتھ سے بنی  چترالی زنانہ ٹوپی جو انتہائی باریک پیچیدہ  کام ہے
3

ہےاور چترالی دستکاری کی ایک شاہکار ہی کہے بے جا نہ ہوگا اور اسکے علاوہ سر بند،میز پوش ،خواں پوش ،رومال  ،کشن وغیرہ  کے دستکاری  کے صنعت کو ترقی اور اس شعبے کے لوگوں کی حوصلہ آفزائی کی ضرورت ہےکیونکہ اسکی تیاری میں  کافی عرصہ بھی لگتاہے۔ لہذا اسی صنعت کو جدید آلات سے لیس بنانے  کے لئے چائینٔا سے مشینری خریدی  جا سکتی ہے۔تاکہ شاہراہوں کے تکمیل کے ساتھ ساتھ ہم  بھی ٹنوں کے حساب سے اپنے مصنوعات  کا بہت بڑا  ذخیرہ  تیار کرکے ،سب سے پہلے  معاہدے میں ان مصنوعات کوخریدنے  پرچین اوروسط ایشائی ممالک کو  مجبور کرا سکیں ،اسےہماری تہذیب وثقافت کی فروغ کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو اسکی اہمیت  کے بارے میں آگاہی بھی مل سکےگی ۔

 ہیونگ سانگ نامی چینی سیاح 629 ءمیں  یہاں سے گزرتےہوئے  اس علاقے میں کپڑوں  کی قلت کے بارے میں  اشارہ دے چکا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہےکہ آرئین قوم اسی وادی میں پھنسنے کے بعد لباس اور خوراک کی قلت کے  شکارقدیم  نسل سے مل کر اپنی شناخت کافی حد تک  کھو چکے تھے اورآج ہو سکتا ہے اِن پہاڑوں کے بیج رہنے والے باشندوں کو جدید ترقیافتہ قوم ،اُسی قدیم پاسیچا باشندوں کی  نظر سے دیکھ کرخارجی اثرات سے ہمارے بھر پور تہذیب وتمدن ،ثقافت،مذہبی و دیگر رسوم ورواج  کوکہیں نقصان نہ پہنچا سکے کیونکہ ایک قانون اُصول اور رسوم و رواج کو رائج ہوکر شرف قبولیت حاصل کرنےمیں کافی عرصہ لگتا ہے۔کیونکہ قدیم  باشندوں کی نسبت ،ہماری  موجودہ نسل سُست ،کاہل ،نا تربیت یافتہ،تیار خور ،خود اعتمادیت کی کمی کےشکار،دوسروں پر انحصار  اور  تیار خوری کے گھناؤنے جرائم کے  مرتکب باشندےہیں ۔ ٹھیک ہے جواب آئے گا ہم مہذب ترین قوم ہیں اور بین الاقومی شہرت یافتہ ہیں اور دوسری طرف یہ بھی پوچھا جائے گا شکر ہےان دنوں  آپکو اُردوبھی  اتی ہے، کیا آپکو کہوار بھی آتی ہے؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم سیدھے سادھے لوگ ہر ایک چمکنے والی چیز کو سونا سمجھ کربے غیر تحقیق  کےاس کے پیچھے  بھاگ جاتے ہیں ،  لیکن کافی فاصلہ ہانپتےکانپتےہوئے طے کرنے کے بعد وہاں بےکار عام دھات کو پاکر پریشانی اور عدم اطمینان کے شکار ہو کر حوصلہ ہار  کر دبے دبے ،خوف زدہ اور ہچکچاہٹ  بھری زندگی گزارنے پر مجبورہو جاتے ہیں ۔لہذا ہمیں اپنی تہذیب وثقافت کے  لبادے اور تہذیب و شائستگی کے دائرے میں رہ کر جدید دور کا مقابلہ کرنا پڑےگا ورنہ ہم اپنی بین الاقوامی شہرت اور زبانیں سیکھنےکے نشے میں کہیں اپنی زبان و ثقافت کوبھی کھو نہ بیٹھے۔مشرقی معاشرہ اور مغربی معاشرہ ،اسلامی معاشرہ اور غیر اسلامی مغاشرہ  میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔لہذا ہمیں اسی مزاج کو سمجھتے ہوئے ،اسی کے تحت زندگی گزارنی پڑے گی۔ لہذااس کےلئے  ہمیں بھی
ان شاہراہوں کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی ،معاشرتی ،ثقافتی اور مذہبی پہلو کی احیاءاور  اسکی پرچار  کی بھی اشد ضرورت پڑے گی تاکہ ہم اپنے دائرے میں رہ کر غیر مسلم معاشرے کے غیر شرغی روایات سے محفوظ رہ کر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں ۔ہمیں ہر شعبے میں اپنے اپکو منوانا پڑے گا ۔اس سلسلے میں فنی تعلیم کو سکول کے نصا ب میں شامل کیا جا سکتا ہے اور ہر ایک بندے کولازمی طور پر کسی نہ کسی فن  جاتھ ھکو سیکھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ خصوصی طور پر کسی فن کار یعنی ،جولا،لوہار،موچی ،نائی ،ڈول دما مہ والا ،ستار نوازی ،ستار سازی ،موسیقار،ترکان ،مستری ،اسلحہ ساز،باورچی ،ڈرائیونگ وغیرہ کے پیشوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اپنے باپ داد کے پیشوں کو حقیر سمجھ کر ترک کرنے سے گریز  کرنا چاہیئے۔اعلے تعلیم اور سرکاری و غیر سرکاری  ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے ُہنر کو بھی زندہ رکھا جاسکتاہے ،کیونکہ کہا جاتاہےکہ  فن کی اہمیت فنکار ہی پہچانتا ہے ۔اس حوالے سےسرکاری و نجی شعبے کے سرپرستی کی بھی  ضرورت ہے،انکو اس مد میں  رقوم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ  جدیدطریقےسے تربیت کو یقینی بنائی جاسکے تاکہ مُتعلقہ خاندان اپنی صنعت کو  ترقی دے کر عزت کی روزی کما سکیں  ۔ ان فنکاروں کے اولاد کو ان سے دوری کے بجائے قربت پیدا کرنےکی اشد ضرورت ہے، اسی طرح اسی صنعت کو ترقی ملے گی۔ثقافت ہر ایک زندہ قوم کی پہچان ہوتی ہےلہذا ہمیں اپنی پہچان اور شناحت کو قائم رکھ کر ترقی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔

قدیم  گزرگاہیں جدید گزر گاہوں کی نسبت کئی گنا بہتر ،مختصر اور تمام موسموں کےلئے موزوں مانے جاتے ہیں ۔لہذا ذاتی پسند و ناپسند اور علاقائی تعصبات سے پاک ہو کر وادی تورکہو کے تین بڑے قدیم گزرگاہوں کا سروے  کرایا جا سکتاہے،اُن میں سب سے قریب ترین  اور آسان ترین گزرگاہ تورکہو(ریچ مغلنگ )کو ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ اسکے پچھے واخان کا قلعہ پنجہ واقع ہے اور ساتھ بہنے والا دریا آمو کوغبور کر کے تاجکستان کے جدید شہر میں  داخل ہو سکتے ہیں ۔  لہذا زیور گول،اُجنو گول اور مغلنگ کا جائیزہ لیا جائے
5

کیونکہ شاگرام تک سڑک کی تعمیر کا کام  شروغ ہو چکا ہے اُمید ہے اس دفعہ یہ منصوبہ حقیقی معنوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے،قوی امکاں ہےکہ  یہ خطہ قدیم گزرگاہونے کی بدولت چین اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ بذریعہ ٹنل رابطے کے لئے،  سب سے زیادہ موزوں ترین وادی وآسان ترین شاہراہ بھی ثابت  ہو سکے۔ اس کےعلاوہ  لواری ٹنل کاعظیم  منصوبہ  بھی امیدہے آنے والے سال مکمل ہو جائے گا،سوات  موٹروے چکدرہ چترال ہائی وے اور چترال شندور روڈ جیسے عظیم منصوبہ کا اعلان مرکزی حکومت کی جانب سے ہو چکی ہے  ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے ،کہ براستہ گلگت وسط ایشائی ممالک سےفاصلہ  نہایت دور ہے۔ان دنوں ایران کی طرف سے چائیناپاکستان اقتصادی  راہداری جیسے عظیم  منصوبے میں  شامل ہونےکی خواہش کا اظہار اور چترال کے پڑوس میں  آفغانستان جیسے پسماندہ ملک بھی اس منصوبےسے بھرپور  مستفید ہوگا ۔ شاید ہو سکتا ہے آفغانستان  بھی خوشحالی،  معاشی اور صنعتی دورڑ میں  شریک ہونےکے بعد کراپنی معیشت  کی بہتری ،خوشحالی اور پائیدار امن کے خاطرہمارے دیگر ناپسندیدہ ممالک سے معاہدہ کرانے کی ضرورت اس کو نہ پڑے۔گلگت سے رابطہ سڑکوں کے ذریعےچترال کو منسلک کرنے کے بجائے مین شاہراہ کو چترال ہی سے گزاری جائے اور چترال مستوج  سے  براستہ شندور ایک بڑی شاہراہ گلگت تک پہنچ چکی ہے اور بس سروس سے علاقے کے لوگ بھر پور مُستفید ہو رہے ہیں ۔قوی امکاں ہے میری رائے سے گلگت والے متفق ہونگےکیونکہ شاہراہ  ریشم ،گلگت جیسے پسماندہ اور سنگلاح پہاڑوں میں گھری ہوئی  اسی تنگ وادی کی تقدیر بدلنےاور اسکی ترقی  کے لئے کافی ہے ۔حقیقت میں تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھا جائےقدیم دورسے پایۂ تحت چترال ہی رہی ہے اور گلگت تک چترال کی حکومت قائم تھی۔اس کا مطلب ہےاس وقت سے جغرافیائی اعتبار سے   گلگت کا چترال سے  رابطہ قائم تھا  اور چترال مرکز تھا ۔غذر میں کہوار زبان بولنے والوں کی بڑی آبادی کی موجودگی بھی اسکی شہادت کے لئے  کافی ہے ۔گلگت سے مرکز تک فاصلے کی دوری کے ساتھ ساتھ سنگلاح پہاڑی خطےاور دشمن کے نظروں کے سامنے ہونا اور بھی بہت سارے وجوہات کی بناء پر نا موزوں  قرار دینے میں  حق بجانب ہونگےاور چترال پُر امن ،مرکز تک فاصلے کی کمی اور وسط ایشیائی ممالک اورچین   کےمشہور صوبےسنکیانگ کے نزدیک پڑنے کی بناءپر چترال کو موزوں ترین خطہ قرارا دینے میں حق بجانب ہونگا اورچترال جیسے پسماندہ اور جدید سہولیات سے محروم باشندوں کو خوش بختی کے اس عظیم دن کو روایاتی طریقے سے منانےو خوش آمدید کہنے  کی خواہش جلد مکمل ہو سکے۔پچھلے مہینے قاقلشٹ کے موضوع  پر میرے شائع شدہ  مضمون  “قاقلشٹ سوئیرزیلنڈ کے تناظر”میں بیان کردہ پلان کے مطابق  جدید شہر بسا کراسے بین الاقوامی منڈی بنائی جاسکتی ہے۔چترال جیسے  حسین وادی کے ُپر سکون خوشگوار فضاء میں پلنے والےتنو مند نوجوان نسل کوثقافتی،مذہبی اور تمدنی لحاظ سے  مکمل اگاہی دی جائےتاکہ کسی دوسری قوموں کی  مذہب ، تہذیب وتمدن،بودوباش اور رسوم ورواج  اُنکے آنکھوں کوحیرہ نہ کردےاور ان سے متأثرہوئے بے غیر اپنی بووباش ،تہذیب وتمدن پکول، چغےمیں ملبوس ہوکر فخر محسوس کرسکے ۔معدنیات سے بھر پور پہاڑ وں کے اند ر گھس  کر سونا ،لغل و جواہرات کو نکالنے کی علم حاصل کرےاور انگریزی زبان سیکھے بے غیر اور چین سے ماہرین بلائےنے غیر بھی اپنےاندر اہلیت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔میرے اندازے کے مطابق اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل شاہراہ کوان گزرگاہوں سے گزارنےکے بعد  چترال کے اس  خطے کی اہمیت گوادر پورٹ سے کسی صورت کم نہیں ہوگی۔اس کے بعد ایسا ہر گز نہ ہوکہ ترقی یافتہ دُنیا  کے لوگ ہمیں قدیم چترال یا اُس دور کے غریب اور غیر تہذیب یافتہ قوم  سمجھ کر ہمارے اُپر یلغار  کر کے ہمیں متاثر نہ کر سکے ۔کیونکہ ہر انقلابی اور جدیدتبدیلی  کے منفی اور ُمثبت  پہلو ہوتے ہیں ،ان سے نمٹنا مشکل کام ہوتا ہے اور ماضی میں  اس قسم کی تمام تر کوششیں قوم کو کچھ دینے میں ناکام ہو چکے ہیں ،اسےہمارے اقدار و ثقافت اور  معاشرے کوشدید نقصان کا سامنا ہوتا آرہا ہے۔ہمیں  کسی بھی خارجی معاشرےکے منفی اور غیر شرغی پہلوں کی نمو  اور اسکی وجہ سے  نوجوان نسل کا عقیدہ اور اسکی ثقافت کو زک پہچانے والے تمام عناصر کو فروغ دینے سے اجتناب  کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا  کے مضر اثرات اور اسکےغلط استعمال  سے اپنی قوم کےنوجوان نسل کو بچانا وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے ۔اس کے یلغار سے نوجوان نسل مختلف قسم کی ذہنی پراگندی کے شکار ہو کر قسم قسم کے حرکات وسکنات کا مظاہرہ کرتے ہوئےمغاشرےمیں دیکھائی دے رہے ہیں ۔اگر ہم وقت سے قبل انکی روایاتی ،تہذیبی ،لسانی اور دینی حوالے سے  تربیت نہ کر سکے، تو شاید ہو سکتا ہے اس عظیم منصوبے سے ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان اٹھا نا پڑےگا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں