265

پانامہ لیکس اور میڈیاکاکردار۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

پانامہ لیکس کے خلاف سراپااحتجاج عمران خان اوران کی پارٹی تحریک انصاف نے وزیراعظم نوازشریف کے مستعفی ہونے یاخودکواحتساب کے لئے پیش کرنے کے مطالبات لے کر دونومبرکواسلام آباد میں دھرنادینے اور شہراقتدارکو لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی دی تھی اوراسے عملی جامہ پہنانے کی غرض سے یکم نومبرکوپی ٹی آئی بالخصوص وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی قیادت میں خیبرپختونخواسے جانے والے پارٹی کارکنوں کے قافلے کی جانب سے شدید مزاحمت بھی نظرآئی تاہم یکم نومبر کوعمران خان نے سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس معاملہ دیکھنے کے حکم کوبنیادبناکردھرناختم اور دونومبرکویوم تشکرمنانے کااعلان کیااوراس تمام تر صورت حال کے تناظرمیں اب پانامہ لیکس کامعاملہ سپریم کورٹ میں ہے ۔چونکہ معاملہ اب عدالت عظمیٰ کے سپرد ہے اوراس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاملے سے جڑے فریقین کی جانب سے فراہم کردہ شواہد،ثبوتوں اوروکلاء کے بحث کی روشنی میں فیصلہ سامنے آئے گااور فیصلہ آنے کی صورت میں کسی فریق کاخوش اور ناراض ہونااپنی جگہ تاہم آزادعدلیہ کی حیثیت کوتسلیم کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کااس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ نہ صرف متعلقہ فریقین کو بلکہ پوری قوم کو قابل قبول ہوناچاہئے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگررہنما الزامات لگاکرثبوتوں کادعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن مانگنے پر ثبوت اور شواہد پیش کرنے سے قاصررہتے ہیں اگرچہ یہ بات کسی حد تک درست تسلیم کی جاسکتی ہے جیساکہ انتخابی دھاندلی کے معاملے میں نظرآیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے الزامات تو ڈھیر سارے اور سنگین نوعیت کے لگائے تاہم بعد میں وہ ثبوت دینے میں ناکام دکھائی دیئے جن کاوہ دعویٰ کررہے تھے یہی وجہ ہے کہ انہیں خاطرخواکامیابی نہیں ہوئی ۔اب پانامہ لیکس کاجو معاملہ عدالت عظمیٰ کے سپرد ہے اس میں پی ٹی آئی ٹھوس ثبوت اور شواہد عدالت کے سامنے لاکر مالی بدعنوانی کے جرم میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے چھٹی کرانے میں کامیاب ہوپائے گی یا راوئتی طرزعمل کے تحت ان کے پیش کردہ ثبوت واقعی کھوداپہاڑاور نکلاچوہاثابت ہوں گے اور نوازشریف نہ صرف منصب اقتدارپر براجماں رہیں گے بلکہ ان کی سیاسی ساکھ کو بھی تقویت ملے گی یہ توآنے والاوقت ہی ثابت کرے گا۔ پی ٹی آئی اور شریف خاندان اس معاملے میں فریق ہیں۔عمران خان آئے روزنت نئے الزامات عائد کرکے وزیراعظم نوازشریف کو چورثابت کرنے کی تگ ودوکررہے ہیں تودوسری جانب شریف خاندان اور حکومتی ٹیم تمام تر الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو ملک کے لئے سیکورٹی رسک قراردے رہے ہیں اگرچہ اپنے دفاع میں بیان دینے کاحق رکھنے کے باوجودفریقین کو معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہونے کی وجہ سے ایسے بیانات نہیں دینے چاہئے جن سے عدالت کاوقار مجروح ہونے کااندیشہ ہو اورانہیں انتظارکرلیناچاہئے عدالتی فیصلے کاجبکہ دوسری جانب عدالت میں زیر سماعت بالخصوص پانامہ لیکس جیسے معاملے میں ججزکوبھی ایسے ریمارکس دینے گرہیزکرنا چاہئے جن سے ان کے جانبدارہونے کاتاثر ملے اور ان کے دیئے جانے والے ریمارکس عوامی سطح پر زیربحث آئیں۔قانونی اعتبارسے دیکھاجائے توپانامہ لیکس معاملے بارے سپریم کورٹ کے متعلقہ ججزفریقین سے پوچھ گچھ سمیت جواب داخل کرانے اور معاملے سے جڑے ثبوت اور شواہد لانے کاپوراحق رکھتے ہیں اس ضمن میں اگرعدالت میں شریف خاندان سے جواب مانگاجاتاہے اورپی ٹی آئی سے ثبوت مانگے جاتے ہیں یااگرعدالت کی جانب سے فریقین کے وکلاء کی سرزنش کی جاتی ہے تو اس سے عدالت کی جانبداری اور معاملے کارخ موڑنے کاتاثردینا انتہائی نامناسب طرزعمل ہے۔ ذکر ہو پانامہ لیکس کے معاملے کاتویہ امر قابل افسوس ہے کہ سپریم کورٹ میں پڑاہوامعاملہ غیرضروری بحث اورغیرمنطقی اندازوں کے تحت میڈیا میں بری طرح اچھالاجارہاہے اوراس حوالے سے کئی ایک نجی ٹی وی چینلزکی دکھائی دیتی غیرضروری مگرغیر معمولی دلچسپی سے تو تاثر یہ ملتاہے جیسے معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے نہیں انہی چینلزنے کرناہے۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم کوجواب جمع کرانے کی ہدایت کردی، وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب جمع نہ کرانے پر سپریم کورٹ کے ججزکااظہاربرہمی، فلاں تاریخ تک جواب جمع نہیں کیاتوفیصلہ دے دیں گے ججز کے ریمارکس،،آپ لائرہیں یالایر سپریم کورٹ کے جسٹس کاشیخ رشید سے مکالمہ،سپریم کورٹ کے ججزنے پانامہ لیکس کے معاملے میں تحریک انصاف کی جانب سے دیئے گئے ثبوت ناکافی قراردیئے ،اخبارمیں خبرآتی ہے اگلے روزاس میں پکوڑے بیچے جاتے ہیں کیااخباری تراشوں کی بنیادپر کسی کوپھانسی دے دیں سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس۔عدالت کے اندرونی معاملات سے جڑی ایسی خبریں میڈیابالخصوص الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے لمحہ بہ لمحہ قوم کو پہنچائی جارہی ہیں جس سے نہ صرف غیر یقینی صورتحال جنم لیتی ہے اور اضطرابی کیفیت کاشکارقوم مزید ذہنی الجھنوں سے دوچارہورہی ہے بلکہ ان سرگرمیوں سے عوامی رائے بنانے سمیت ایک ایساماحول پیدا کرنے کی بھی سعی کی جارہی ہے جو معاملے کے فیصلے پراثراندازہو۔نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوزمیں مخالفین کوآمنے سامنے لاکرجومذاکرہ کیاجاتاہے اس کامقصد معاملے کی اہمیت اور آفادیت واضح کرنانہیں بلکہ سوچے سمجھے اندازمیں اسے متنازعہ بناتاہوتاہے اور ایسی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے یہ تاثرلیناغلط نہیں کہ پانامہ لیکس کامعاملہ ہو یامعاملہ ہوخبرلیکس کاسیاسی جماعتوں میں انتشاراور ملک میں ہیجانی کیفیت کی اصل ذمہ دار میڈیاہی ہے۔اداروں کی غفلت ولاپرواہی اورافسرشاہی کے باعث وطن عزیزمیں بے تحاشہ مسائل ہیں جن سے شہری دوچارہیں اور میڈیاکااصل کام ان مسائل کی بروقت نشاندہی اور ذمہ داروں کاتعین کرناہوتاہے نہ کہ دن رات محض پانامہ لیکس معاملے کواچھالتارہے ۔میڈیاہی عمران خان پر الزام لگاتاہے کہ وہ خیبرپختونخواجہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے کی جانب توجہ دینے کی بجائے نوازشریف کے پیچھے پڑے ہیں اور اپنی توانائیاں غیرضروری طورپر ضائع کررہے ہیںیہ بات درست لیکن میڈیااپناآپ بھی تو دیکھے کہ وہ خودکہاں کھڑاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں