232

دل تو ہے جماعتی تحریر ……کریم اللہ

انجینئر فضل ربی جان صاحب کاجماعت اسلامی کو خیر باد کہے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد پہلا انٹرویو پبلش ہوا۔ انٹرویو کا زیادہ حصہ جماعت اسلامی کی تعریف پر محیط ہے۔جس میں وہ دعوی کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے نظرے سے بے حد متاثر ہے جماعت اسلامی انسانی فلاح وبہبود کے لئے کام کررہی ہے ۔ اس انٹرویو کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ انجینئر صاحب کو جماعت سے رخصت ہوئے کئی ماہ گزر گئے لیکن ان کا دل اب بھی جماعتی ہے ۔ یہ بھی احساس ہوا کہ انجینئر صاحب جماعتی لٹریچر کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا ہو ورنہ جماعت اسلامی کی اس قوم پر احسانات کی ایک لمبی فہرست ہے جس کے تذکرے کی ضرورت نہیں ۔ انجینئر صاحب کیوں جماعت اسلامی کو خیر باد کہا اپنے انٹرویو میں اس کی وضاحت سے گریزان ہے ، البتہ ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ کو ٹکٹ دینے پر دھبے الفاظ میں شکایت کی۔ انجینئر صاحب اگر معاملہ ٹکٹوں کا نہیں تھا اور آپ جماعت اسلامی میں نظریات کی وجہ سے شامل تھے تو پھر جماعت کو خیر باد کہنے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ جماعت اسلامی جیسے نظریاتی جماعت (جس کی آپ آج بھی مدح سرائی کرتے نہیں تھکتے) کے بہتر مفاد میں قربانی دیتے اور جماعت کے اندر ہی رہتے ہوئے مسائل کی نشاندھی کرتے یا اگلے پانچ سال کے لئے انتظار ہی کرتے ۔ اگر نظریاتی سیاست کی بات کی جائے تو جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی نظریاتی طورپر ایکدوسرے کے بالکل ضد ہے پھر ایک سخت گیر مذہبی جماعت کو خیر باد کہہ کر خالص سیکولر جماعت میں شمولیت چہ معنی دارد؟ اگر پیپلز پارٹی واقعی ملک وقوم کی خدمت میں مصروف ہے تو پھریہ احساس ساڑھے دو دھائی بعد کیوں ہوااس قت جبکہ پیپلز پارٹی اسٹبلشمنٹ مخالف اور عوام دوست سیاست (محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ) کررہی تھی تو اس وقت اس جماعت کی نظریات یا خدمات کیوں نظر نہ آئی؟ اس سے قبل خاکسار نے حاجی غلام محمد صاحب کا انٹرویو کیا تھا ان کا موقف تھا کہ میں پیپلز پارٹی میں ٹکٹ کے لئے نہیں بلکہ پارٹی کے نظریات اور ملک کے لئے ان کی خدمات سے متاثر ہو کر شامل ہوا ہوں( یہی بات انجینئر صاحب بھی فرما رہے ہیں ) بندہ پوچھے جناب کیا پیپلز پارٹی کے نظریات اور خدمات کا آج پتہ چلا جبکہ حاجی صاحب زندگی بھر پیپلز پارٹی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھیں۔ اور اب انجینئر صاحب کا انٹرویو پڑھنے کے بعد سیاسیات کے اس طالب علم کو شدید کنفیوژن ہوئی یہ کہ اگر جماعت اسلامی اتنی ہی اچھی تھی کوئی اختلافات نہیں تھے اور ٹکٹ کی تلاش نہیں تھیں تو پھر پارٹی چھوڑا ہی کیوں ؟ خاکسار کی رائے یوں ہے کہ سیاسی جماعتیں تبدیل کرنا کوئی گناہ نہیں لیکن جس بنیاد پر وفاداریاں تبدیل کی جاتی ہے یہ سب سے اہم سوال ہے ۔ انجینئر صاحب سے گزارش یوں ہے کہ اب چونکہ سیاسی وفاداری تبدیل ہی کی ہے تو تو پھر کیوں ناساری کشتیاں جلا کر نئی زندگی کا آغاز کیا جائے وگرنہ دو کشتیوں کی سواری کا منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں