243

خیبرپختونخوا کابینہ نے دیوانی مقدمات ایک سال میں نمٹانے کی منظوری دیدی

خیبر پختونخوا کابینہ نے دیوانی مقدمات میں انصاف کی تاخیر، وقت کے ضیاع کو روکنے اور تیز رفتاری سے مقدمات نمٹانے کیلئے سول پروسیجر کوڈ 1908 کے تحت مختلف شیڈول/ کوڈز میں متعدد ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔

پیر کے روز صوبائی کابینہ اجلا سکے بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے سول پروسیجر کوڈ کے رولز میں ترامیم کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی پی سی 1908 میں بنا تھا تب سے آج تک تقریباً 110 سالوں سے اسی طرح چل رہا ہے حالانکہ وقت کے ساتھ حالات کو دیکھتے ہوئے اس میں تبدیلی ہونی چاہئے تھی۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس قانون کے رولز میں ترامیم تجویز کی ہیں جن کی صوبائی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ مذکورہ ترامیم میں دیوانی مقدمات کیلئے مدت کا تعین کیا گیا ہے جس سے مقدمات کی طوالت کا خاتمہ ہوگا اور زیر التواء مقدمات کا بھی آسان حل نکلے گا۔ ملک کی تاریخ میں یہ واحد صوبائی حکومت ہے جس نے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے رولز میں ترامیم تجویز کی ہیں۔

انہوں نے عندیہ دیا کہ صوبائی حکومت کریمینل قانون میں بھی ترامیم تیار کر رہی ہے جو وفاقی حکومت کو بھیجی جائیں گی۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مقدمات کے طویل اور پیچیدہ طریق کار اور ٹائم لائن نہ ہونے کی وجہ سے دیوانی مقدمات میں شامل فریق خود دیوانہ ہو جاتا ہے مگر کئی دہائیوں تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا جو باعث تشویش تھا۔

پرویز خٹک نے واضح کیا کہ 60 دن میں عدالت پلیڈنگ کا مرحلہ مکمل کرے گی اور متفرق درخواستوں پر عدالت کا فیصلہ قابل اپیل اور قابل واپسی نہیں ہو گا سوائے پورے مقدمے کی از سر نو سماعت کی صورت میں۔ اس طرح متفرق درخواستوں کا فیصلہ 60 دن میں ہوگا، پلیڈنگ کے مرحلے کے بعد دستاویزات کی تفتیش اور معائنے کیلئے 30دن کی مدت کا تعین کیا گیا ہے جس میں عدالت چاہے تو سمری مقدمہ سنا سکتی ہے۔ ٹرائل کے مرحلے میں سات دن کے اندر مقدمے کی حدود کا تعین کیا جائے گا اور عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے ایک سال میں مقدمے کا تصفیہ کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترامیم کے مطابق جو فریق مقدمے کی پیروی اور عدالت کے احکامات ماننے میں ناکام ہوگا عدالت اس پر جرمانہ عائد کرے گی اس طریقہ سے تاخیری حربوں کے استعمال اور عدالت کی حکم عدولی کا خاتمہ ہو گا، علاوہ ازیں اپیلٹ عدالت کو اپیلٹ سٹیج پر اضافی شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار بھی دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے اپیلٹ عدالت مقدمہ سماعت یا شہادت ریکارڈ کرنے کیلئے ماتحت عدالت میں بھیجتی تھی۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پہلے سے موجود رولز میں فیصلہ سنانے کیلئے مدت کا تعین نہیں تھا مگر اب سول اور اپیلٹ عدالتیں 15 دن میں فیصلہ سنائیں گی، فیصلے کے اجراء کو کیس مینجمنٹ اور شیڈنگ کانفرنس کے تحت لایا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے مدیون ڈگری کے کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کا بلاک کرنا بھی شامل ہے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ صوبائی حکومت عدالت کو درکار ججز اور دیگر ضروریات پورا کرنے کیلئے بھی تیار ہے وہ اس سلسلے میں چیف سیکرٹری سے کہہ چکے ہیں کہ ہائی کورٹ سے رابطہ کریں صوبائی حکومت اپنے اختیارات کے مطابق ضرورت پورا کرے گی۔

قصور میں بچی کے قتل کے تناظر میں متعلقہ قانون کو بہتر کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس سلسلے میں قانون پہلے سے موجود ہے تاہم اس قانون میں تبدیلی یا ترمیم وفاقی حکومت کا کام ہے صوبائی حکومت اس ضمن میں اپنی سفارشات وفاق کو بھیجے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں