262

داد بیدا د…ترقیا تی فنڈ اما نت…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ہر سال کی طرح اس سال بھی وفا قی بجٹ میں سرہے کاری شعبے کے تر قیا تی پر و گرام کے لئے بھا ری رقوم مختص کی گئی ہیں پہلے کی طرح صو بائی بجٹ میں بھی تر قیا تی فنڈ رکھا جا ئے گا اس فنڈ کو مختلف محکموں کے الگ الگ شعبوں میں تقسیم کیا جا تا ہے ہر تین ماہ بعد اس کے خر چ کا حساب ما نگا جا تا ہے سال کی چار سہ ما ہیوں میں اس کو خر چ کر کے ختم کیا جا تا ہے عام تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ سکول کے ہیڈ ما سٹر کو اگر ایک کلا س روم کی تعمیر کے لئے صرف 8لاکھ روپے ملتے ہیں تو کلا س روم ایک سال میں تعمیر ہو جا تا ہے اس کے مقا بلے میں کلا س روم کی تعمیر کے لئے اگر دو کروڑ روپے کسی تعمیراتی محکمے کو دیے جا تے ہیں تو اس کی تعمیر پر چار سال لگتے ہیں کا م بھی دو پیسے کا نہیں ہو تا اس طرح ایک نہر یا آبنو شی سکیم کے لئے کسی تعمیرا تی محکمے کو اگر 10کروڑ کا فنڈ دے دیا جا ئے تو منصو بہ 8سالوں میں مکمل نہیں ہو تا مکمل ہو جا ئے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ تعمیرا تی کا م کا معیار نا قص ہے اگلے سال اس کی مرمت کے لئے فنڈ کا مطا لبہ کیا جا تا ہے اس کے مقا بلے میں پرا جیکٹ کمیٹی، پرا جیکٹ لیڈر یا مقا می استفادہ کند گان کی تنظیم کو اسی کا م کے لئے اگر 20لا کھ روپے کا پرا جیکٹ دیا جا ئے تو وہی کا م ایک سال میں اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ مکمل ہو تا ہے وجہ یہ ہے کہ سکول کا ہیڈ ما سٹر کلا س روم کو اپنا گھر سمجھتا ہے قومی خزا نے سے آنے والے فنڈ کو اما نت سمجھتا ہے گاوں کے لو گوں کی پراجیکٹ کمیٹی یاتنظیم آپ پا شی یا آب نو شی سکیم کو گاوں کی ملکیت اور عوام کی ملکیت سمجھتی ہے اس لئے تھوڑا سافنڈ سوچ سمجھ کر استعمال کر تی ہے اور ان کا ہر کا م معیا ری بھی ہو تا ہے 1960ء کے عشرے میں محکمہ بلدیات کے قانون میں پرا جیکٹ کمیٹی، دیہی تنظیم اور امدا د با ہمی کے تحت سر کاری فنڈ کا استعمال ہو تا تھا یہ سلسلہ 2008تک جا ری تھا 2008میں اس کو ختم کیا گیا عالمی عطیہ دہند گا ن یا ڈو نر ز پا کستان کو جو امداد یا گرانٹ دیتے ہیں اس کے لئے وزارت خزا نہ کو پا بند کر تے ہیں کہ یہ رقم ہر حال میں دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں کے ذریعے مختلف سکیموں پر خر چ کی جا ئیگی انگریزی میں اس اصول کو اونر شپ یعنی تصور ملکیت کہا جا تا ہے تعمیر ا تی محکموں میں اس اصول کا شدید ترین فقدان ہے 2023اور 2024کا بجٹ ایسے وقت پر پیش کیا گیا ہے جب وطن عزیز تاریخ کے بد ترین معا شی بحران کا شکار ہے ملک کے اوپر دیوا لیہ ہو نے کی تلوار لٹک رہی ہے اس لئے مو جو دہ بجٹ کو خر چ کر تے وقت پھو نک پھو نک کر قدم رکھنا چا ہئیے اور وقت کی نزا کت کا تقا ضا یہ ہے کہ روا یتی طریقے پر ٹینڈ ر کے ذریعے کنٹریکٹر کو کا م دینے کے بجا ئے دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں کو کا م دیا جا ئے ہزارہ،سوات، دیر، کو ہستا ن، چترال اور گلگت بلتستان میں دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں نے گذشتہ 40سالوں میں ہزاروں کا میاب منصو بوں پر کا م کیا ہے ان میں سڑک، پل، آب پا شی، آبنو شی کی سکیموں کے علا وہ جدید ترین بجلی گھر بھی شا مل ہیں واپڈا، پیسکو اور کر اچی الیکٹر ک سپلا ئی کمپنی کے پا س اب تک پری پیڈ بلنگ سسٹم نہیں ہے چترال کی دیہی تنظیموں نے 600کلو واٹ اور 800کلو اٹ کے بجلی گھروں کے صا رفین کو کارڈ کے ذریعے بیلنس ڈال کر بجلی حا صل کر نے کا سسٹم دیا ہے رات دس بجے گھر کی بجلی چلی گئی تو قریبی دکا ن سے بیلینس ڈلوا کر کارڈ کو فعال کریں دو منٹ کے اندر بجلی آجا ئیگی اگر متبا دل سسٹم متعا رف نہیں کرا یا گیا تو قومی خزا نہ اس سال بھی عوامی مفاد میں خرچ نہیں ہو گا مو جو دہ سسٹم میں 5ارب روپے کی سکیم کے لئے 6دفتر وں میں کمیشن کا ٹا جا تا ہے تو سکیم پر خر چ کر نے کے لئے ایک ارب روپیہ بھی نہیں بچتا اس لئے مو جو دہ حکومت اور مقتدر اداروں کو متبا دل طریقہ کار اختیار کرنا چا ہیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں