192

داد بیداد…تقریر کا فن…ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

اخبار کھولیں یا ٹیلی وژن لگائیں،ریڈیو سنیں یا سو شل میڈیا سے رجو ع کریں پا کستان میں کرا چی سے خیبر اور گوادر سے گلگت تک تما م سیا سی لیڈروں کی تقریروں میں الزام اور دشنا م کے سوا کچھ نہیں ملتا پڑو سی مما لک ایران، افغا نستان، نیپال، بھوٹان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ایسا نہیں ہو تا، ترقی یا فتہ دنیا میں کہیں بھی ایسا دیکھنے اور سننے میں نہیں آتا جن مما لک میں جمہوریت نہیں ہے وہاں امن اور سکون ہر سال رہتا ہے جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں چار سال یا پا نچ سال بعد انتخا بات کا مو قع آتا ہے جلسے، جلو س، ریلیاں اور تقریریں ہو تی ہیں بڑے بڑے کنو نشن منعقد کئے جا تے ہیں 3ما ہ یا 4ماہ کی مہم کے بعد انتخا بات ہو تے ہیں نئی حکومت بنتی ہے اور امن و سکون لو ٹ آتا ہے وطن عزیز پا کستان میں انتخا بات کے اگلے دن ہا ر نے والی جما عتیں ہنگا مہ کھڑا کر تی ہیں اور یہ ہنگا مے اگلے 5سالوں تک جا ری رہتے ہیں امن اور سکون کا ایک دن بھی نصیب نہیں ہوتا اسلا م اباد، لا ہور اور کر اچی کے سفارتی حلقوں میں غیر ملکی سفارتی عملے کے ساتھ گفتگو کا موقع ملتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ پا کستان کی سیا سی جما عتوں میں ذہنی بلو غت، جمہوری روایت اور تہذیب و شائشتگی نہیں ہے اس لئے بر سر اقتدار جما عت کو انتخا بات کرانے نہیں دیا جا تا، نگران حکومتیں قائم کی جا تی ہیں مگر آخری روز نگران حکومت کی طرف سے منعقد کئے گئے انتخا بات کو بھی تسلیم نہیں کیا جا تا اس معا ملے میں سب سے زیا دہ قصور سیا سی جما عتوں کا ہے سیا سی جما عتوں میں کا رکنوں کی کوئی اہمیت نہیں، عوام کی رائے کا کوئی احترام نہیں سیا سی جما عت پر کچھ لو گ پیسے لگا تے ہیں وہی لو گ ہنگا مے کر اتے ہیں حکومت آنے کے بعد اپنا پیسہ دس گنا کر کے سرکاری خزانے سے وصول کر تے ہیں یہ شیطا نی چکر ہے جو بد عنوانی اور معاشی بد حا لی کی بنیاد ی وجہ ہے الزام تراشی اور دشنا م بازی کی منفی روایت کے بارے میں سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ کسی بھی سیا سی لیڈر کے پا س عوام کو دکھا نے کے لئے منشور اور پرو گرام نہیں ہے اگر منشور اور پرو گرام ہو گا تو سیا سی لیڈر اپنے منشور اور پر وگرام پر بات کرے گا، اپنی کار کر دگی دکھائے گا سیا سی لیڈر کے پاس اپنا منشور اور پروگرام نہ ہو تو وہ دوسروں پر کیچڑ اچھا ل کر تقریرجھا ڑ تا ہے ان پڑھ عوام ان تقریروں پر تا لیاں بجا تے ہیں اور جھوٹے نعرے لگا تے ہیں لیڈر کے کھو کھلے دعووں پر اچھل کود کر تے ہیں بنگڑے ڈالتے ہیں ان پڑھ عوام کو جلسے میں مصروف رکھنے اور تفریح مہیا کرنے کے لئے اونچے سروں میں مو سیقی بجا ئی جا تی ہے بینڈکااہتما م کیا جا تا ہے تا کہ مجمع لگا رہے لو گ بور ہو کر جلسہ گاہ چھوڑ کر فرار نہ ہو جا ئیں ہم نے کسی ترقی یا فتہ معا شرے میں بینڈ با جے والے جلسے نہیں دیکھے وہاں لو گ سیا سی لیڈر کو سنتے ہیں کیونکہ لیڈر کے پاس بولنے کے لئے علم ہو تا ہے، تجربہ ہوتا ہے، منا سب الفاظ ہوتے ہیں موزوں اور دلکش جملے ہو تے ہیں پا کستانی سیا ست میں ان چیزوں کی شدید کمی ہے سیا سی لیڈر کی تقریر مخا لفین کے نا م سے شروع ہو کر مخا لفین کے نا م پر ختم ہو تی ہے درمیاں میں بیسیوں الزامات آتے ہیں، بیسیوں گا لیاں آتی ہیں عقل و خرد کی کوئی بات نہیں ہو تی اخباری رپورٹر اس الم غلم کو رپورٹ کر تا ہے ٹیلی وژن چینلوں پرو ہی دکھا یا جا تا ہے سوشل میڈیا پر وہی آتا ہے ریڈیو پر وہی سنا ئی دیتا ہے اس کے نتیجے میں برائیاں پھیلتی ہیں منفی پرو پیگینڈہ پھیلا یا جا تا ہے بیرونی سفارت کار کہتے ہیں کہ جس دن پا کستان کے کسی سیا سی لیڈر نے الزام اور دشنا م کے بغیر تقریر کرنے کا فن سیکھ لیا اُس روز پا کستان کی سیا سی جما عتوں میں بلوغت آئیگی تقریر کا فن سیا ست اور جمہوریت کی بنیاد ہے ہمارے لیڈروں کا المیہ ہے کہ ان کو تقریر کا فن نہیں آتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں