262

جگنووں کا مدفن۔۔۔ ایم سرورصدیقی

OOOآپ نے گھپ ٹوپ اندھیری رات میں جگنوﺅںکو چمکتے تو دیکھاہوگاروشنی کی کرنیں جگنوکے جسم سے پھوٹتی ہیں تو ایک عجب بے نام سااحساس ہوتاہے اور قدرت کے اس کمال پر حیرت بھی۔۔۔کالی رات میں جگنوکو دیکھ کر یہ بھی گمان ہوتاہے جیسے کسی نے مشعل اٹھارکھی ہو ۔کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔ایک بزنس مین نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ کامیابی کےلئے زندگی میں دو کام انتہائی ضروری ہیںپہلا جب تم کسی سے کوئی وعدہ کروتواسے پورا کرنے کے لئے نفع نقصان کی پروا ہ مت کرنا۔۔۔اور دوسرا لڑکے نے استفسار کیا
بزنس مین نے سنجیدگی سے کہا دوسرا یہ کہ ۔۔تم کوشش کرنا کسی سے وعدہ ہی نہ کرو۔کیونکہ۔وعدہ کریڈبیلٹی ہوتاہے
مذہب میں بھی وعدے کی بڑی اہمیت ہے یہ الگ بات کہ کچھ لوگوںکا خیال ہے وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے اس کا سیدھا سادامطلب یہ ہے کہ جان چھڑانے کےلئے وعدہ کرلو پورا کرو نہ کرو کوئی بات نہیں بدقسمتی سے پاکستان کے بیشترقومی رہنماﺅںکا یہی مسلک ہے وہ اسی دروگوئی کو سیاست کا نام دیتے ہیں شاید اسی صورت ِ حال پر غالب نے کہا تھا
تیرے وعدہ پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
ہم خوشی سے مر نہ جاتے ،گر اعتبار ہوتا
جھوٹے وعدے کرنے والے دوسروںکو الو بنانے کافن جانتے ہیں اور بے چارے مسائل کے مارے لوگوںکے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ماضی میں تو سناکرتے تھے وعدہ خلافی عاشق ِ نامدار سے ان کے محبوب کیا کرتے ہیں اسی لئے ہجرو وصال کے دوراہے پر عاشق ٹھنڈی آہیں بھرکر وقت گذارا کرتے کئی اسی کش مکش میں شاعر بن جاتے ویسے ہجرو فراق میں صندل کی طرح سلگتے رہنے کا اپنا مزاہے لیکن اب اب کچھ قدریں، محاورے اور حالات بدل گئے ہیں دل جو کبھی جلتا بھی نہیں بجھتا بھی نہیں کی تفسیر بنارہتاتھا اب بجلی کی آنکھ مچولی سے سلگتارہتاہے مگر جب بجلی کا بل آتاہے ایک دل نہیں پورے کے پورے خاندان کے دل کسی عاشق ِ رو سیاہ کی مانند جل اٹھتے ہیں اس لئے اب ڈاکٹر مشورہ دینے لگے ہیں کہ کمزور دل کے لوگ بجلی کے بل دیکھنے سے گریز کریں ہمارے ایک حکمران نے احتجاجی کیمپ میں ہاتھ والا پنکھا اداکارہ انجمن کے اندازمیں جھلتے ہوئے علی الاعلان دعویٰ کیا تھاہم نے اقتدارمیں آکر لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا نام بدلنا تو دورکی بات وہ عوام سے پیچھا چھڑاکر لندن بھاگ گئے ہیں یہ لوگ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ہمیشہ عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں۔۔ اقتدار کے دنوں میں عوام انہیں وعدہ یاددلاتے تو کبھیوہ آئیں بائیں شائیں کرتے یا پھر زردار یکو الٹا لٹکانے کی دھمکیاں دے کر عوام کا دل خوش کردیتے آپ اس دوران جالب کی نظمیں پڑھ پڑھ کر انہیں بے وقوف بنانے کے فن میں یکتا تھے ”عوام “نے تو انہیں اپنا محبوب جان کر اتنے ووٹوں دے دئےے تھے پھر ان کی نیب کورٹ میں حاضری پر نعرے لگانے والوںکی کوئی کمی نہ تھی اب تلک ووٹر،مسلم لیگ ن اور اپوزیشن والے اس قدر حیران پریشان ہیں کہ انہیں یقین ہی نہیں آرہا شہبازشریف کسی کو اعتمادمیں لئے بغیر لندن چلے گئے جناب یہ ہوتی ہے سیاست۔۔ جو ایسی سیاست کرنے کا ہنر نہیں جانتا یقین جانئے ساری زندگی چخ مارتارہے کبھی اقتدارمیں نہیں آسکتا اس لئے تو عمران خان نے وزیر ِاعظم بنتے ہی پینترا بدلتے ہوئے کہا ہے یوٹرن لیناپڑتاہے۔ ویسے پاکستان کے ہر حکمران نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کئے ہیں اس لئے ایک شعر حاضر کچھ اضافی ترمیم کے ساتھ
انہوںنے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھاپانچویں دن کا
شایدکسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
ایک بقراط کا خیال ہے کہ وعدے ایفا کرنے کےلئے نہیں کئے جاتے ایویں وعدے پورے کرکے عوام کا دماغ خراب کرنے والی بات ہے۔۔وعدے پورے اور مسائل مک گئے تو کل کون پاگل ان سیاستدانوںکو ووٹ دے گا بھٹو نے اس قوم کو روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ دیا۔ لیکن لوگوںکو روٹی ملی نہ کپڑا اور نہ مکان ویسے یہ وعدے بڑا مسحورکن تھا جس نے بھی سنا ساکت ہوگیا۔۔ضیاءالحق نے اسلامی نظام کا وعدہ کیااس لئے ریفرنڈم کروانے سے بھی دریغ نہ کیا مزے کی بات ہے کہ کئی سال اسلام آباد براجمان رہے موصوف نے کئی مذہبی جماعتوںکو اپنے ساتھ اقتذار میں شریک کرکے اپنے طور سمجھ لیا تھا کہ ملک میں اسلامی نظام کا دور دورہ ہے۔ پھربے نظیر بھٹو نے اپنے والدکا منشور اپنایا لوگ انتظارمیں رہے کہ شاید محترمہ کچھ کر گزرے لیکن ان کے شوہر ِ نامدار نے بھٹو کے منشور پر عمل اس اندازسے کیا کہ آج تک ان کی کہانیاں مشہو رہیں۔۔۔ میاں نواز شریف اپنے آپ کو Made in Pakistan کہتے رہے۔ لیکن لوگوں کا کہناہے کہ انہوںنے اس حیال سے پاکستان میں منی لانڈرنگ کے نت نئے طریقے ایجاد کئے کھربوںکی بیرون ِ ممالک جائیدادیں بنا لیں پھر ایک وقت آیا ان کے سب سے بڑے دشمن آصف زرداری نے بھی ان کے طریقہ ¿ واردات سے فائدہ اٹھایااور آج ان کا خاندان نیب کے حضور پیشیاں بھگتا پھرتاہے۔جنرل پرویز مشرف سب سے پہلے پاکستان کی گردان کاورد کرتے رہے لیکن اب وہ دبئی سے پاکستان آنے کےلئے تیار نہیں حالانکہ ان کو عدالت ِ عظمیٰ نے ایئر ایمبولینس کے ذریعے آنے کی پیش کش کی تھی یعنی کسی حکمر ان کوئی دعوےٰ سچ ثابت نہیں ہوا۔۔۔ کوئی وعدہ پورا ک نہ کیا گیا اب عمران خان نیا پاکستان بنانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اقتدارمیں آنے کے باوجود وہ بے بس نظر آرہے ہیں باقی بچے ڈاکٹر طاہرالقادری جو انقلاب لانے کی نوید سنا سناکر تھک گئے ہیں باقی سیاسی و مذہبی رہنماﺅں کے دعوﺅں اوران وعدوں کا کیا حشر ہوگا کوئی نہیں جانتا؟ مگر کہتے ہیں امیدپر دنیا قائم ہے اسی لئے تو کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔ دنیا میں ہر شخص خواب دیکھتاہے اپنی ترقی، خوشحالی اورسنہرے دنوں کے خواب یا پھراولاد کے تابناک مستقبل کے سپنے۔ کوئی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا رہ جاتاہے اس دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے خواب شرمندہ ¿ تعبیرہوتے ہیں غالباً دس فی صد بھی نہیں۔۔۔ اقوام ِ عالم میں اکثر کودو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں پاکستان میں ایسے افرادکی تعدادففٹی سے بھی تجاوزکر چکی ہے جن کی زندگی کا مقصد صرف پیٹ کا دوزخ بھرناہے ان میں لاکھوں ایسے بھی ہیں جن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک ہوتاہے ان کے بچوں سے بیگارلی جاتی ہیں گھرکی خواتین بھی کھیتوں اور بااثر افرادکے گھروںمیں کام کرتی ہیں جہاں عزت محفوظ ہے نہ عصمت۔۔کام کے عوض اجرت دینے کا وعدہ ۔اس کے باوجود بہتر مستقبل کاخواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی عائدنہیں کی جا سکتی۔۔۔
امید توبندھ جاتی، تسکین توہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے ،وعدہ تو کیا ہوتا
حالات کے مارے لوگوںپر ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب امید دم توڑ دیتی ہے ۔برصغیرکے کروڑوں افراد خط ِ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبورہیں یہاں کی حکومتوں نے عوام کو ان کے حال پر چھوڑرکھاہے عوام کی حالت بہتر بنانے کےلئے ہر حکومت ،ہر سیاستدان وعدے تو بہت کرتاہے لیکن عملاً عوامی فلاح وبہبود کےلئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے ملکی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکزہوکر رہ گئے ہیں جمہوریت ،آئین اور قانون ان کے گھر کی لونڈی بن کررہ گیاہے کئی افریقی ممالک میں تو اس سے بھی براحال ہے وہاں وسائل اتنے کم ہیںکہ لوگوںکو کئی کئی ماہ گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا اب یہ تو معلوم نہیں وہاں کے لوگوںکوبہتر زندگی گذارنے کی کوئی امید بھی ہوتی ہے یا نہیں۔۔۔وہ رنگین خواب بھی دیکھتے ہیں یا نہیں؟ یہ الگ بات کہ وسائل پرقابض رنگین خواب بھی دیکھتے ہیںاورسنگین خواب بھی۔۔۔ان خوابوںکی تعبیر بھی ہوتی ہے بلکہ خواب پہلو سے لگ کراٹھکیلیاں بھی کرتے ہیںبس امیر اور عریب کے خوابوںمیںیہی ایک فرق ہے۔۔۔اسے کہا جا سکتاہے فرق صاف ظاہر ہے۔ ۔ وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیںمایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے۔کل میرے ایک دوست نے کہا ہمارے حکمرانوںنے ہم سے خواب بھی چھین لئے ہیںہر طرف مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی کے بلوںکی حال دہائی مچی ہوئی ہے کوئی عوام کی ترجمانی کی بات کرتاہے تو میری آنکھوں میں جگنو سے لرزنے لگتے ہیںاللہ نہ کرے یہ بھی ماضی کی طرح سراب ہو ایسا ہواتو ہم امیدوںکے صحرا میں بھٹکتے پھریں گے اور راستہ بھی نہیں ملے گا۔۔۔دوست کی باتیں اپنی جگہ پر ۔۔اس وقت وی آئی پی کلچرکے خلاف جو بیداری کی لہر آرہی ہے ا س نے پورے ماحول کو متاثر کرکے رکھ دیاہے تبھی تو کل دل کی بات ایک حکمران کے ہونٹوںپر آہی گئی حالانکہ یہ راز تو ان جیسے لوگ کئی دہائیوں سے چھیائے پھر تے ہیں ان کا خدشہ تھا انقلاب آیا تو غریب ۔ امیروںکا نام ونشان تک مٹا ڈالیں گے۔یہ خدشہ بے بنیاد نہیں ایک حقیقت ہے اور وہ وقت آن پہنچاہے جب سب کو لازماً اس کا سامنا کرنا پڑے گا جب حکمران حال مست۔مال مست ہو جائیں۔ اقتدارکی بندر بانٹ اوروسائل پر مک مکاکو جمہوریت کا نام دیدیا جائے۔جب عام آدمی روٹی کے لقمے لقمے کو ترس جائے۔حکمران وعدے کرکے عوام کا حال تک نہ پوچھیں ان کے پاس دولت کے پہاڑ جمع ہو جائیں۔۔لوگوںکی امید دم توڑنے لگے۔ خواب ڈارونے خواب بن جائیں تو پھر وہ انقلاب آکررہتاہے جس سے حکمران ابھی سے خوفزدہ ہیں۔۔آپ نے گھپ ٹوپ اندھیری رات میں جگنوﺅںکو چمکتے تو دیکھاہوگاروشنی کی کرنیں جگنوکے جسم سے پھوٹتی ہیں تو ایک عجب بے نام سااحساس ہوتاہے اور قدرت کے اس کمال پر حیرت بھی۔کالی رات میں جگنوکو دیکھ کر یہ بھی گمان ہوتاہے جیسے کسی نے مشعل اٹھارکھی ہو ۔کبھی کبھی سوچتاہوں وعدے،امید اور خواب بھی جگنوکی مانند ہوتے ہیں جومایوسی میں بھی مسلسل جدوجہدکرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں جینے کا حوصلہ ملتاہے تو دل جیسے پھرسے جوان ہو جاتاہے کاش کوئی حکمرانوںکو یہ بتانے کی جسارت کرے کہ جب آنکھیں امید کے لرزتے جگنوﺅںکا مدفن بن جائیں تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں پھر میں میں نہیں تو تو نہیں رہے گا یہ ماحول۔یہ سماج ۔۔یہ نظام نہیںرہے گاشاید قیامت سے پہلے قیامت کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے اس وقت ہر شخص کا نام ہوگا انقلابی پھرجوحالات جنم لیں گے ان کے سامنے انقلاب ِ فرانس یا انقلابِ لیبیا بھی بے وقعت ہو جائے گا ایسے وقت سے ہم سب کو ڈرنا چاہےے۔ جگنو بھی امیدکی مانندہوتے ہیں گھپ اندھیرے میں کہیں کوئی دور کوئی جگنو چمکے تو امیڈ بندھ جاتی ہے کہ ا س اندھیری اور کالی رات میں بھی روشنی کی جو کرن نمودار ہوئی ہے یہ اس بات کااعلان ہے کہ یہ کالی رات بھی آخرکار ختم ہو جائے گی سورج کی کرنوںکے ساتھ ہی روشن مستقبل کا سویرا نمودارہوگا اسی لئے میں اندھیری اور کالی رات میں طلوع ِ سحرکے انتظار میں اپنے دامن میں سینکڑوں،ہزاروں جگنو لئے بیٹھا زندگی نے وفا کی تو ٹھیک ہے ورگرنہ ان جگنوﺅںکو میرے ساتھ ہی دفن کردینا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں