298

چترالی ٹیکسی ڈرائیوررحمت ولی کاانوکھا ریکارڈ۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

پہاڑوں کے دامن میں مسکراتی خیبرپختوونخواکی دلکش وادی ضلع چترال دنیا بھر سے سیاحوںکواپنی طرف کھینچنے پرمجبورکرتی ہیں ۔پشاورسے تقریباً345 کلو میٹر کے فاصلے پرجنت نظیروادی ضلع چترال کوااللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے ۔قدرتی حسن جمال سے مالامال ہونے کے باوجودیہاں کے مکین بھی ذہنی،علمی،ہرقسم کی قدرتی صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔ آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے کردار سے کرواتے ہیں جوغریب لوگوں کوباآسانی منزل تک پہنچنے میں ریڑھ کی ہڈی کاحیثیت رکھتاہے کہنے کامقصدٹیکسی ڈرائیوررحمت ولی خان سکنہ مغلاندہ جونہایت خوش اخلاق ،نرم مزاج اورخدمت کے جذبے سے سرشارانسان ہے
چترال ٹاون سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیوررحمت ولی نے آلٹوکارمیں 27سواری بٹھاکرنیاریکارڈقائم کیاتھااورپھراپناہی ریکارڈتوڑتے ہوئے اگلی بار34سواری بٹھاکرکامیاب مظاہرہ کیا۔رحمت ولی کاکہناہے کہ میںنے پاکستان اورچترال کانام روشن کرنے کے لئے اپنی گاڑی داو¿پرلگادی اورورلڈریکارڈقائم کیاتاہم مجھے کسی سرکاری اہلکاریاغیرسرکاری ادارے کی طرف سے حوصلہ افزائی کاسندتک نہیں ملا۔انہوں نے کہاکہ جب میں نے چھوٹے آلٹوکارمیں34سواریاں بٹھاکرکامیاب مظاہرہ کیاتووہ کئی اخبارات میں چھپ گیااورمختلف ٹی وی چینل پرنشرہوامگرصوبائی یاوفاقی حکومت کی طرف سے مجھے کوئی تعریفی سندتک نہیں ملا۔میراچھوٹاساآلٹوکارہے جسے میں ٹیکسی کے طورپرچلاکراپنے اہل خانہ کے لئے روزی روٹی کماتاہوں مگرملک کے نام روشن کرنے کے لئے میں نے نہایت خطرہ مول لیتے ہوئے اس میں 34مسافربٹھاکرمظاہرہ کیا میری خواہش تھی گینزبک آف ورلڈریکارڈمیں میرانام آئے مگرگینزبک میں میرانام نہیںآیا۔رحمت ولی نے چترال کے ضلعی انتظامیہ سے بھی گلے شکوے کرتے ہوئے کہاکہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے بھی مجھے کوئی ایوارڈنہیں دیا۔رحمت ولی نے اس آلٹوکارکوخودڈرائیونگ کرتے ہوئے چترال سے سوکلومیٹر دورگبوروادی کے آخری کونے تک جاچکے ہیں جوکچے ،دشوارگزاراورنہایت خراب سٹرک پرپہلاآلٹوکارکاسفرتھاجہاں فورویل گاڑیاں انتہائی مشکل سے پہنچ سکتے ہیں۔گبورگرچشمہ سے آگے افغانستان کے سرحدکے قریب واقع ہے جس کی سڑک پتھریلی اورنہایت خراب حالت میں ہے ۔رحمت ولی کاکہناہے کہ میں نے پہلی بارآلٹوکاراس وادی میں لے جاکرایک نیاباب رقم کیامگراس پربھی مجھے کوئی پزیرائی نہیں ملی ،رحمت ولی خا ن کاآلٹوکاراب اس کے گھرکے سامنے کھیتوں میں کھڑاہے جس کی ٹائربھی پنچرہوچکے ہیں اوراب مقامی بچوں کے لئے ایک تماشہ بناہے ۔جس سے وہ اپنے اہل خانہ کے لئے رزق حلال کماسکتے تھے
حکومتی عدم توجہ کے باعث بہترین ٹیلنٹ ضائع ہورہیں۔اُن کاکہناہے کہ اگر حکومتی سرپرستی ہو تو دنیا بھرمیں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔تاہم آج وہ بھی آہستہ آہستہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کی دلدل میں دھنسے جارہے ہیں۔ایسے ہونہارنوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرکے ٹیلنٹ محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
جب ضلع لیول پرچترال کا نام روشن کرنے والے افرادموجود ہیں جنہیں موقع دینے کی ضرورت ہے۔تاہم آج وہ مایوسی کاشکارنہ ہوسکے ۔انہوںنے حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وطن عزیزکے شہری علاقوں میں کرتب کرنے والوں کو ہمیشہ توجہ دی جاتی ہے اگر اس میں سے پانچ فیصد چترال جیسا دورافتادہ علاقوں کوبھی توجہ دی جائے تو ہم ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں