218

داد بیداد۔۔۔۔دو عجیب کہا نیاں۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

آج دو عجیب کہا نیاں یا د آرہی ہیں دو نوں پرندوں کی کہا نیاں ہیں اللہ پا ک نے حضرت سلیمان ؑ کو پر ندوں اور کیڑے مکو ڑوں کے ساتھ بات کرنے کا معجزہ دیاتھا بار ھویں صدی کے صو فی بزرگ شیخ فرید الدین عطار نیشا پوری ( 1145 -1220ء) نے منطق الطیر کے نام سے پرندوں کی مجلس پر پوری کتاب لکھی ہے مگر آج کی کہا نیوں کا تعلق با دشاہوں کے در باروں سے ہے ایک ظا لم باد شا ہ تھا اُس کے در بار میں قاضی بھی ظا لم تھے با د شا ہ کو طو طے پا لنے کا شو ق تھا ایک دن باد شاہ کا پسندیدہ طو طا مر گیا با د شاہ کو طو طے کے مر نے کا بڑا قلق اور دکھ ہوا داروغہ کو اس جرم میں سو لی پر لٹکانے کا حکم دیا داروغہ نے کہا مرنے والے طوطے کی کہا نی در بار شا ہی میں سنا نے کی مہلت اور تب تک جان کی امان چا ہتا ہوں با دشاہ نے اجا زت دی داروغہ نے کہا نی شروع کی طو طا اپنی طوطی کے ساتھ دو دن غا ئب رہا دو دن بعد آیا تو اپنی غیر حا ضری کا عجیب قصہ سنا یا طو طے نے کہا ہم سیر پر نکلے ایک ویرانے میں پہنچے ویرانہ اتنا بڑا تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا ہم اس ویرانے میں راستہ بھول گئے اور بھٹکتے رہے اس طرح رات سر پر آئی اچا نک کہیں سے ایک الّو بھی آگیا اُلّو نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا اور ہمیں رات کے کھا نے کی دعوت دی اندھا کیا چا ہے دو آنکھیں ہم نے اُلّو کی دعوت قبول کر لی پر تکلف دعوت کے بعد ہم نے الّو سے اجا زت لی جب ہم روا نہ ہونے لگے تو الّو نے طو طی کو روک لیا میں نے کہا کیوں روکتے ہو یہ میری بیوی ہے اُلّو نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو یہ میری بیوی ہے اس پر جھگڑا ہوا ٓخر الّو نے کہا چلو قاضی کے پا س جا تے ہیں وہ اس کا فیصلہ کرے گا ہم تینوں قاضی ثا قب کی عدا لت میں حا ضر ہوئے قاضی نے ثبوت نہ گواہ مانگے دعویٰ سُن کر فیصلہ دیا کہ طو طی الّو کی بیوی ہے با ہر نکل کرمیں اکیلے جا نے لگا تو الّو بولا! مہمان عزیز! اکیلے کیو ں جا تے ہو اپنی بیوی کو ساتھ لے جاؤ میں نے کہا قاضی ثاقب نے تمہارے حق میں فیصلہ دیدیا ہے اب یہ تمہاری بیوی ہے الّو نے کہا نہیں بھائی بیوی تمہاری ہے میں تمہیں قاضی ثا قب کے پا س یہ دکھانے کے لئے لا یا تھا کہ ملک الّو کی وجہ سے ویراں نہیں ہو تا قا ضی کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ویراں ہو تا ہے جہاں انصاف نہ ہوالّو وہاں بسیرا کر لیتا ہے لو گ اس کو ویرانہ کہتے ہیں یہ کہہ کر الّو نے طو طی کو میرے ساتھ آنے کی اجا زت دی اور ہم بڑی مشکل سے واپس آگئے اپنی کہا نی سنا نے کے بعد طو طا مر گیا طوطے کی کہانی ختم ہونے کے بعد مجھے بھی سو لی پر چڑ ھا یا جائے گا کہا نی سن کر با دشاہ نے داروغہ کو معاف کر دیا جاں بچی لاکھوں پائے گو یا دروغہ کی حا ضر جوابی سے زیا دہ الّو کی عقلمندی کام آئی میں حیران ہوں شا عر نے یہ مصر عہ کیوں چُست کیا ”ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا!“ یہ تو خیر،گمنا م باد شاہ کا در بار تھا دوسری کہا نی مشہور سا سا نی باد شاہ بہرام گور (-438 420ء) کے در بار کی ہے ایران میں سا سا نی سلطنت کا یہ پندر ھواں با دشاہ تھا اپنے باپ یزدجرد سے بھی زیا دہ عیاش اور ظا لم تھا دور دور تک اس کی عیا شی اور ظلم کے قصے عام تھے ایک دن در بار میں مست بیٹھا تھا رات کا سماں تھا پائیں با غ کے سب سے اونچے درخت سے دو الّو وں کے بو لنے کی آواز آئی بہرام گور نے کہا کسی کو الّو کی زبان آتی ہے؟ یہ آپس میں کیا گفتگو کر رہے ہیں؟ دربار میں ایک مسخرا تھا اُس کی کسی بات پر باد شاہ نا راض نہیں ہو تا تھا مسخرے نے کہا عالی جاہ! میں جانتا ہوں اگر جاں کی امان پاوں تو عرض کروں بہرام گور نے اشارہ کیا بو لو یہ اُلّو کیا کہہ رہے تھے؟ مسخرے نے کہا نرا لّو ما دہ سے کہہ رہا تھا میرے ساتھ شادی کر لو ما دہ کہہ رہی تھی ایک شر ط پر تمہارے ساتھ شا دی کر ونگی شر ط یہ ہے کہ مہر میں پورا ویرانہ میرے نا م کر وگے اس پر نر الّو بو لا فکر مت کرو اگر بہرام گور کی باد شا ہت رہی تو پورا ملک ویراں ہو جائے گا میں ایک کی جگہ دس ویرانے تمہارے نا م کرونگا ؎
آں قصر کہ بہرام درو جام گرفت
آہو بچہ کرد، و روباہ آرا م گرفت
بہرام گور کو بڑا غصہ آیا لیکن جان بخشی کا پروانہ دے چکا تھا مسخرے کی جان بچ گئی آج میں سوچتا ہوں اگراس وقت ٹرمپ اور مو دی کی ڈپلو میسی کے دور میں الّو کی شادی ہو گئی تو حق مہر میں ما دہ الّو کو کتنے ویرانے ملینگے؟ اور بہرام گور کے دربار میں مسخروں کو کتنا انغام ملے گا؟
یا درکھیے آج کل صرف لکھنے اور بولنے پر پا بندی ہے سوچنے پر کوئی پا بندی نہیں ؎
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن!
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں