316

بستے کا وزن۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

بچے کا بستہ آج کل سکول بیگ کہلاتا ہے سکول بیگ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ بچے کا بستہ وزنی بہت ہے اس قدر وزنی بستے کو اُٹھا اٹھا کربچے کی کمر جھک جاتی ہے۔بچہ عمر سے پہلے بوڑھا،کمزور،لاغر اور نحیف ہوجاتا ہے۔بات آگے بڑھی یہاں تک آگے بڑھی کہ صوبائی کابینہ نے اس کا نوٹس لے لیا کابینہ کے اجلاس میں اس پر بحث ہوئی بحث کے بعد کابینہ نے فیصلہ کیا کہ بچے کے بستے کا وزن کم کیا جائے اور کم سے کم کی حد رکھی جائے جو زیادہ سے زیادہ کی حد بھی ہوسکتی ہے کابینہ نے سفارش کی ہے کہ اسمبلی سے اس مضمون کا ایکٹ بنواکر قانون کے ذریعے بچے کے بستے کاوزن کم کیا جائے اور اس مقصد کے لئے ترازو رکھوائے جائیں،کتابوں کی دکان میں ترازو،بچے کے گھر میں ترازو،بچے کی جماعت کے کمرے میں ترازو رکھ کر ہرروز بچے کے بستے کو تولا جائے اور بار بار تولا جائے راہ چلتے وزن زیادہ نہ ہو بس پر چڑھتے وزن میں گڑبڑ نہ ہو،کمرہ جماعت میں بیٹھے وزن میں کمی بیشی نہ ہو۔اسمبلی میں جوبل پیش ہوگا اس میں قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صراحت ہوگی کہ پلے گروپ،نرسری اور کے جی میں بچے کی عمر2سے4سال ہوگی بستے کا وزن ڈیڑھ کلوگرام ہوگا،بچہ جماعت اول میں آئے گا تو اس کی عمر5سال ہوگی بستے کا وزن عمر کے لحاظ سے ڈھائی کلوگرام ہوگا اس طرح ہر جماعت میں عمر کے ساتھ بستے کا وزن بڑھتا جائے گا بچہ پانجویں جماعت میں جائے گا تو اس کی پیٹھ پر5کلوگرام کا بستہ ہوگا وہ دسویں جماعت میں جائے گا تو بستے کا وزن ساڑھے چھ کلوگرام ہوجائے گا گیارھویں اور بارھویں جماعتوں میں پڑھنے والے بچوں کی عمریں 16اور18سال کے درمیان ہونگی ان کے کندھوں پر7کلوگرام وزنی بستے کا بوجھ ہوگا۔تجویز میں دی گئی تفصیلات کو دیکھ کرلگتا ہے کہ کابینہ کے اراکین نے مسئلے پر بہت غور کیا ہے غالب گمان یہ ہے کہ کابینہ کے بعض اراکین کو ان کا اپنا سکول بیگ بھی یاد آیا ہوگا پھر انہوں نے موجودہ دور کے بچوں پہ ترس کھایاہوگا 60سال پہلے ہم لوگ سکول جایا کرتے تھے تو ہمارے پاس بستے یا سکول بیگ نہیں ہوتے تھے ایک رومال ہوتا تھا کتابیں،کاپیاں اُس رومال میں باندھ کر کندھے سے لٹکایا کرتے تھے وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہم سکول جایا کرتے تھے مجھے حیرت ہے اختر شیرانی نے سکول آنے جانے پر کوئی نظم کیوں نہیں لکھی حالانکہ انہوں نے گاؤں کی سیر پر نظم لکھ کر اس کو عنوان دیا”او دیس سے آنے والے بتا“ انہوں نے ایک وادی کی سیر پر نظم لکھی اور اسکو عنوان دیا”یہی وادی ہے ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی بعد میں اس کی پیروڈی لکھی گئی ”یہی کالج ہے ہمدم جہاں ریحانہ پڑھتی تھی“اگر اختر شیرانی سکول بیگ پر بھی طبع ازمائی کرتے تو اس کا عنوان ہوتا”میرابستہ“ہمارے زمانے میں بازار سے بستہ لانے کا دستور نہیں تھا اگر رومال سے بہترانتظام کی بات ہوتی تو مائیں گھر میں بے کار کپڑوں کا تھیلا بناکر دیا کرتی تھیں کابینہ کے اراکین کوان کے بستے یاد آئے ہونگے توان کی کیا حالت ہوچکی ہوگی یہ ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے پشاور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سکول بیگ کے وزن پر ابزرویشن دی اور اس خواہش کا اظہار کیاگیا کہ بچوں کے کندھوں سے سکول بیگ کا وزن کم کیا جائے اُس وقت کے چیف سیکرٹری کوہدایت کی گئی کہ اس پر سرکاری حکمنامہ جاری کیا جائے ڈیڑھ سال کے غوروخوص کے بعد کابینہ کے سامنے جو تجویز رکھی گئی یہ تجویز ادھوری ہے اس کویکطرفہ بھی کہا جاسکتا ہے جب حکومت کسی پُرانے دستور کی جگہ نیا قانون لانا چاہتی ہے تواس کے دونوں پہلووں کو دیکھتی ہے عوام کو کتنی ذمہ داری دی جائے اور حکومت پر کتنی ذمہ داری کا بوجھ ڈالا جائے اگر اس موضوع پر سیمینار ہوتے یا ورکشاپ ہوتے تو مختلف تجاویز آسکتی تھیں مثلاً سکول اور کمرہ جماعت کے نظام میں تبدیلی لاکر بچوں کے سکول بیگ کا وزن کم کیا جائے یا ٹائم ٹیبل اورڈیسک کاڈیزائن بدل کر سکول بیگ کا وزن کم کیا جائے ہم یہاں چین،کوریا،جاپان،امریکہ،برطانیہ اور جرمنی یا فرانس کی مثالیں دے کر مضمون کو بوجھل کرنا نہیں چاہتے کم از کم نیپال اور تھائی لینڈ سے کچھ سیکھنے کی التجا کرسکتے ہیں نیپال کے دارلحکومت کھٹمنڈو میں ایسے سکول قائم کئے گئے ہیں جہاں نصاب کی کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی۔اساتذہ کو سلیبس دیا جاتا ہے سلیبس میں اگر جغرافیہ کا سبق ہے تو استاذ پہاڑوں کی ساخت پر سبق تیار کرتا ہے پھر ہرروز اس سبق کو آگے بڑھاتا ہے ہرمضمون کا یہی حال ہے بچے کاپی لیکر سکول جاتے ہیں گھر آکر کاپی پر ہوم ورک کرتے ہیں سکول بیگ کے وزن کا کوئی مسئلہ نہیں،چین،کوریا اور تھائی لینڈ کے دوردرازدیہات میں ایسے سکول ہیں جہاں بچہ کاپی لیکر بھی نہیں جاتا وہاں انتظامیہ نے سکول کے اندر مناسب نرخ پر ہلکے پھلکے کھانے کا انتظام کیا ہے بچے سکول پر ہی لنچ کرتے ہیں۔گھر کاکام بھی کمرہ جماعت میں کرکے خالی ہاتھ گھروں کوآتے ہیں۔وطن عزیزپاکستان میں ایسے ڈیسک فراہم کئے جاسکتے ہیں جن کے اندر بچے نصف کتابیں رکھ کر تالا لگادیں اور نصف کتابیں ضرورت کے مطابق گھر لے جائیں یہاں ایسا ٹائم ٹیبل بھی بنایا جاسکتا ہے کہ ہر روز نصف کتابیں سکول بیگ میں رکھی جاسکیں۔نصف کتابیں اگلے روز بستے میں رکھنا آسان ہوگا۔لیکن یہاں سارازور بچوں پر،والدین پرڈالا گیا کہ ترازو رکھو،ناپ تول کے ساتھ بچے کو سکول بھیجو تھوڑی سی گڑبڑ ہوئی ناپ تول میں کمی بیشی ہوگی تو جرمانہ ہوگا۔بندہ پرورایسا نہیں ہوتا کچھ کام سرکارنے بھی کرنا ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں