77

دادبیداد..نظر آنے والے کام..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

وزیر منصو بہ بندی احسن اقبال نے عندیہ دیا ہے کہ اگلے 8سالوں میں اگر ملکی بر آمدات 100ارب ڈالر تک پہنچ گئے تو پا کستان تجارتی خسارے سے نکل آئیگا ادائیگیوں کا توازن درست کرنے کے قابل ہوگا، کرنسی مضطوط ہو گی اور دنیا کی کامیاب معیشت کا مالک ترتی یافتہ ملک بن جائے گا انہوں نے یہ بات باقاعدہ تحقیق اور سائنسی تجزیوں کی بنیا دپر کہی ہے اور یقینا پلاننگ کمیشن ان اہداف کے حصول کے لئے کام بھی کرتا ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ وزیر منصو بہ بندی نے ایک انتباہ بھی جاری کیا ہے، انتباہ یہ ہے کہ اگلے 3سالوں میں پا کستان کو 70ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی پر لگانے ہیں یہ حکومت اور عوام دونوں کے لئے بڑا چیلنج ہے وطن عزیز میں جب بھی اقتصادی بحران آتا ہے اس کا نزلہ غریبوں پر گرتا ہے، جب بھی ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی بات ہوتی ہے اس کادائرہ غریبوں کے گردتنگ کیاجاتا ہے یا سفید پوش طبقے کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے موجود ہ حا لات میں سب کو ملک کی معاشی مشکلات کا اندازہ ہے اور عوام میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ملک کا دولت مند اور امیر طبقہ معیشت کی بحالی کے لئے کبھی قربانی نہیں دیتا، یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ ٹیکس کا استثنیٰ ختم کرنے کی باری آتی ہے تو غریبوں کو مزید ٹیکسوں میں جکڑ لیا جاتا ہے اس وقت فیڈرل بورڈ آف ریو ینیو کے ریکارڈ میں بعض نمایاں طبقے ہیں جن کا ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی ضرورت ہے، اگر ان کو ٹیکس نیٹ میں لا یا گیا تو یہ نظر آنے والا کام ہوگا، عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا عوام میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ حکومتی اداروں کا حجم ضرورت سے زیا دہ بڑھ چکا ہے اہم شخصیات کے پرو ٹو کول اخراجات تشویشناک صورت تک پہنچ چکے ہیں ان میں کمی لائی گئی تو نظر آنے والا کام سمجھا جائے گا ماضی قریب میں یونان اور سری لنکا،اس قسم کی آزمائش سے دو چار ہوئے تھے، نصف صدی پہلے سنگا پور، جنو بی افریقہ اور ملائشیا کو ایسے ہی مسائل کاسامناتھا،ان ممالک نےایک ہی ماڈل اپنایا اور معاشی بحران سے نکل آئے ان میں سے سنگا پور اور ملا ئشیا نے معاشی طاقت حاصل کی، معیشت کی ترقی اور مضبو طی کا یہ ماڈل تین درجاتی نمونہ ہے اس میں فوری اقدامات درمیانی مدت کی منصوبہ بندی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے اہم درجے آتے ہیں ان پربیک وقت عمل کیا جاتا ہے اس میں عوام کااعتماد حا صل کرنے کے لئے نظر آنے والے کاموں کو اہمیت دی جاتی ہے پا کستانی معیشت کے تناظر میں فوری اقدامات کی کوئی لمبی فہرست نہیں ہے کابینہ کا حجم گھٹانا ہے مفت بجلی اور مفت پیٹرول پر پابندی لگاناہے وی آئی پی پرو ٹوکول کے اخراجات کو ختم کرنا ہے، ان اقدامات سے ماہا نہ2ارب ڈالر کے برابر پا کستانی کرنسی کی بچت ہوگی ان اقدامات کے ساتھ 16ہزار جاگیرداروں 250منافع بحش تنظیموں اور 10ہزار سرکاری گاڑیوں پر سے ٹیکس کا استثنیٰ ختم کرنا ہے ان اقدامات سے حکومت کو 10ارب ڈالر کے برابر ماہانہ آمدنی حاصل ہو گی، ماہانہ 12ارب ڈالر جتنی کرنسی خزانے میں جمع ہو گئے تو سال میں ڈیڑھ کھرب ڈالر کے برابر پاکستانی روپیہ آئیگا جو اس وقت ضائع ہورہا ہے، منصو بہ بندی کمیشن اگر جوائنٹ سٹاک کمپنی کے تعاون و اشتراک سے ایک کمیٹی بناکر پاکستان میں خیراتی کام کے نام پر رجسٹرڈ تنظیموں کی چھان بین کرے تو غیر منافع بخش حیثیت میں رجسٹرڈ ہونے والی 200تنظیمیں ا یسی ملینگی جو ٹیکسٹائیل انڈسٹری سے زیادہ منافع کمارہی ہیں گویا ان تنظیموں نے اپنی حیثیت تبدیل کر دی ہے مگر جوائینٹ سٹاک ایکیسچنج کو اپنی منافع حیثیت رپورٹ نہیں کی یہ بہت اہم معاملہ ہے اس پر تو جہ دی گئی تو فیڈرل بورٹ آف ریونیو کے لئے ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنا بہت آسان ہوگا، جا گیر دار طبقے سے ٹیکس لینا ماضی میں بھی ممکن تھا اب بھی ممکن ہے لیکن یہ طبقہ ہرحکومت میں شامل ہو کر اپنے مفا دات کا تحفظ کرتا ہے موجو دہ حالات میں ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے تاریخ میں پہلی بار جاگیر داروں سے ٹیکس وصول کرنا ہو گا بالفاظ دیگر اس طبقے کو بھی ملک اور قوم کے لئے قربانی دینے پر آمادہ کرنا ہوگا، وسط مدتی اورطویل المدت اقدامات میں صنعقی شعبے کی ترقی، نظام عدل کی بحالی اور امن وامان کا قیا م سب سے اہم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں