246

دادبیداد۔۔۔۔ڈیجیٹل پا کستان۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

ڈیجیٹل پا کستان حکومت کا نیا وژن اور خواب ہے پچھلے ایک ہفتے سے میری ڈیو ٹی لگی ہے ایک ٹھیٹ اور نا خواندہ دیہاتی کسان کو اس کی تفصیلات سمجھا رہا ہوں مگر اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ علم اور دانش صرف مدرسوں، کالجوں اور یو نیور سٹیوں سے سند لینے والوں کے پا س نہیں ہوتی، علم اور دا نش ایک نا خواندہ مو چی، درزی، کسان اور ڈرائیور کے پا س بھی ہو تی ہے مگر اس علم و دا نش کو ہم نہیں سمجھتے یہی مسئلہ آج میرے سامنے ہے شیر نواز خان کے علم کو میں نہیں سمجھتامیرے پا س جو معلومات ہیں وہ اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں اُس جیسے لو گ مجھے نہیں سمجھا سکتے مجھ جیسے لو گ اس کو نہیں سمجھا سکتے ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ شیر نواز خان اگر نا خواندہ ہے مگر خبر یں سنتا اور دیکھتا ہے خبروں میں دلچسپی لیتا ہے اور میں جب بھی گاوں جا تا ہوں مجھ سے ایک ہی بات پو چھتا ہے اگر کوئی”خبر زمانہ“ ہے تو بتاؤ نہ جا نے یہ فار سی تر کیب وہ حا لات حا ضرہ کے لئے کیوں استعمال کرتا ہے؟تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پا کستان ڈیجیٹل ہو رہا ہے اب ہمارا ملک بھی بر طا نیہ، فرانس، امریکہ اور جا پا ن کا مقابلہ کرے گا وہ کہتا ہے کہ پہلے مجھے یہ سمجھاؤ کہ ڈیجی ٹل کیا چیز ہے؟ میں کہتا ہوں یہ کمپو ٹر کی مدد سے دنیا بھر میں کا روبار کرنے کا ذریعہ ہے وہ پوچھتا ہے کمپیوٹر کیا ہے؟ میں کہتا ہوں یہ مو جو دہ زمانے کی حیرت انگیز مشین ہے جو مشرق سے مغرب تک لو گوں کے در میان رابطہ اور گفتگو میں آسانی پیدا کرتی ہے اُس کے پا س یہ کمال کیسے آگیا؟ میں ہمت نہیں ہار تا ڈی۔ایس۔ ایل، وائی فائی ورلڈ وائڈ ویپ اور دوسری اصطلاحا ت کو ٹھیٹ دیہاتی زبان میں تر جمہ کرتاہوں مگر نا خواندہ کسان نہیں مانتا وہ پینترا بدل کر کہتا ہے میں نہر کا گد لا پا نی پیتا ہوں مجھے نلکے کا صاف پا نی چا ہئیے میرے گاوں کے لئے کوئی سڑک اور پُل نہیں ہے مجھے پُل اور سڑک چا ہئیے میں 12انڈے بیچ کر ایک کلو دال خرید تا تھا اب 12انڈوں کے عوض آدھ کلو دال بھی نہیں آتا مجھے ڈیجیٹل پا کستان سے کیا لینا دینا ہو گا؟ پھر مجھ سے پو چھتا ہے کیا تمہیں پتہ ہے اس گاوں کی آبادی کتنی ہے؟ میں کہتا ہوں 340گھرانے تک مجھے یا د ہے بس یہی آبادی ہے اس میں لو گوں کی تعداد کیا ہے؟ میں حیراں ہوتا ہوں تو پوچھتا ہے ایوب خان نے کس سال مار شل لاء لگایا تھا؟ میں کہتا ہوں ”1958ء میں“کسان اپنا ہاتھ میرے ہا تھ پر مار تا ہے اور خوش ہو کر کہتا ہے لو گوں کا شمار یہی ہے ان میں سے 700ووٹر ہیں ہمارا پو لنگ سٹیشن بھی الگ ہے میں اس کو واپس ٹریک پر لانے کے لئے کہتا ہوں تمہارا گاوں بھی ڈیجیٹل پا کستان کا حصہ بنے گا تم بھی فائدہ اٹھاو گے وہ ایک نو جوان کو بلا تا ہے اور کہتا ہے شہری با بو جس مشین کا ذکر کر تا ہے اس مشین کے بارے میں بتاؤ میں نو جوان سے پو چھتا ہوں کیا اس گاوں میں بجلی ہے؟ وہ کہتا ہے ”نہیں“ میں پوچھتا ہوں اس گاوں میں لوگ لیپ ٹاپ، آئی فون اور سمارٹ فون لیکر آتے ہیں یا نہیں؟ نو جواں کہتا ہے نہیں یہ نا م میں نے پہلی بار سنا ہے اب کسان مجھے معلومات دیتا ہے ایف ایم ریڈیوپر آیا تھا کہ پا کستان میں 100میں 80گھرا نے دیہات میں رہتے ہیں جب 100میں 80گھرا نوں کے پا س کمپیو ٹر نہیں دوسرا لٹر پٹر کچھ بھی نہیں تو پھر ڈیجیٹل پا کستان سے یہ لو گ کسطرح فائدہ اٹھا ئینگے؟ اس سوال کا جواب دینے سے نا خواندہ کسان ایک اور حملہ کر تا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تمہارے شہر میں حکومت کا کوئی نمائندہ ہے اگر ہے تو اس کو میرے پاس بھیجو میں صرف دو باتیں اس کو بتا ونگا گاوں کے غریب اور نا خواندہ لو گ انگریزی نہیں جا نتے اتنی سی بات جانتے ہیں کہ جو حکومت سڑک بنائے،نلکے کا پا نی دے، آٹا،دال سستی کرے وہ اچھی حکومت ہو تی ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہوائی قلعے تعمیر نہ کرو میرا سر چکرا گیا اورمیں نے کسان سے اجا زت لے لی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں