283

مسلمان کی شناخت…..تحریر…اقبال حیات برغوزی

شاہی جامع مسجد میں ظہر کی آزان کے بعد حضرت مولانا حسین احمد صاحب کی طرف سے دیئے جانے والے خوبصورت درس کے دوران مسجد سے متصل پریڈ گراونڈ میں کھیلے جانےو الے فٹ بال کے تماشائیوں کی طرف سے چیخ وپکار پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اور مولانا موصوف نے درس کو روک کر انتہائی عاجزی اور دلسوزی کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو ملتے ہوئے فرمایا۔کہ الہی کس سے فریاد کریں۔ چند رو ز کے لئے ارباب اختیار بننے والے اپنے مسکنوں کے قر ب وجوار میں پرندوں کو بھی پر مارتے ہوئے برادشت نہیں کرتے ۔اور مختار کل کے گھر کے آنگن میں طوفان بدتمیزی کا احساس تک نہیں کیا جاتا۔ایک عالم دین کی زبان سے نکلنے والے یہ چندالفاظ ہمارے لئے دعوت فکر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ہمارے ایمان کی کیفیت کیا ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پرخانہ خدااور اس کے متعلقہ امور کی انجام دہی کا جائزہ لیا جائے ۔ تو حقیقی ادب واحترام کا رنگ نظر نہیں آئے گا۔ مگر حسرت اور افسوس کا مقام ہے کہ ہزاروں تماشائیوں کو آذان سننے کے بعد نماز کے لئے اہتمام کرنے کی بجائے کھیل کے رنگ میں شیطانی عمل کے شکنجے سے نکلنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ سات سو مرتبہ جس عمل کا ذکر قرآن میں ملتا ہے ۔اس کی بجا آوری میں دنیاوی امور،معاملات اور خواہشات آڑھے آتے ہیں۔دنیا کےلئے کئے جانے والے دھندوں کے دوران تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب نماز کا وقت ہوتا ہے۔تو کراہتے ہوئے مجبوری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پیالی ٹوٹنے پر چیخ وپکارسے گھر سر پراٹھا یا جاتا ہے۔ لیکن اولاد کی بے نمازی کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔راستے پر چلتی ہوئی موٹر سائیکل کی بتی دن کے وقت جلتی نظر آئے تو ہر کوئی نقصان کی بنیاد پر موٹر سائیکل چلانے والے کا دھیان اس طرف کرنے کے لئے آواز دینے لگتا ہے۔ لیکن آذان کے بعد دنیاوی سرگرمیوں میں مصروف افراد کو مسجد کی طرف دعوت دینے کو اہمیت نہیں دیتے ۔کسی تقریب ،دفتریا عوامی مقامات پر جاتے وقت خود کو بن سنوارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جاذب نظرکپڑے زیب تن کرتے ہیں۔مگر رب دو جہاں کے حضور میں حاضری کے وقت اس قسم کی کیفیت کا اہتمام نہیں کرتے اور صرف کپڑوں کے پاک ہونے پراکتفا کیا جاتا ہے ۔ گھر میں وضو کرکے مسجد کی طرف جاتے ہوئے ہر قدم پر ثواب کے حصول کا خیال ہی نہیں رکھتے۔ جماعت میں پہلی صف کے بایان طرف کھڑے ہونے کی فضیلت سے مستفید ہونے کی بجائے کشاں کشاں خود کو پچھلی صف کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نماز کے دوران پڑی جانے والی آیات اور خصوصاً سورہ فاتحہ کا ترجمہ تک نہیں جانتے۔نماز کے آداب کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے خشوع خضوع کے ساتھ اس کی ادائیگی کی بجائے ایک رسم نبھانے کی کیفیت کا مظاہر کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ بلا جواز نماز کو چھوڑنے کو کفر یہ عمل ہونے اور مومن اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی عبادت کی حیثیت سے نماز کی طرف توجہ اور اس کی ادائیگی میں شوق کے فقدان کی وجہ سے رب کائنات کے حضور اٹھنے والے ہاتھ خالی لوٹائے جاتے ہیں۔اورقرآن کی طرف سے نماز کی بے حیائی اورمنکرات سے انسان کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی کے تناظر میں ہماری معاشرتی زندگی ہماری پڑی جانے والی نمازوں کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہے۔بحرحال اس سلسلے میں اس حقیقت کو سامنے رکھ کر ہمیں جینا چاہیے۔

وہ ایک سجدہ جسے توگیران سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں