98

داد بیداد..عہد فاروقی..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

سادگی اور کفا یت شعاری کو وطن عزیز پا کستان سمیت عالم اسلا م کو درپیش مسائل کا واحد حل قرار دیا جاتا ہے ایک آدھ اسلا می ملک اور بہت سارے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ممالک میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں جن قوموں کے حکمرانوں نے سادگی اپنا ئی اورکفایت شعاری کا راستہ اختیار کیا وہ قو میں بڑی طاقت بنگئیں اروند کیچریوال نے ثابت کیا ہے کہ اکیسویں صدی میں حکمران پروٹوکول اور سیکیورٹی گارڈ کے بغیر گھوم سکتاہے سائیکل اور موٹر سائیکل پر ادھر اُدھر جاسکتا ہے دامن صاف ہوتو حکمران کو عوام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اسلامی تاریخ حکمرانوں کی سادگی اور کفایت شعاری کی مثالوں سے بھری پڑی ہے سب سے زیادہ متاثر کرنے والی مثالیں خلا فت راشدہ اور عہد نبوی ﷺ میں ملتی ہیں عہد نبوی ﷺ میں اسلا می سلطنت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوا،عہد فاروقی میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں 28لا کھ مر بع میل کے ممالک تک پھیل گئیں عراق، ایران،فلسطین اور شام بھی اُس دور میں فتح ہوئے عہد فاروقی میں حمص کی ولایت سر سبز و شاداب اور وسائل سے بھر پور دولت مند اور ثروت مند ولایت تھی سیدنا عمر فاروق ؓ جتنے بڑے منتظم اور سخت گیر تھے، اتنے ہی مرد شناس اور نفسیات دان بھی تھے، انہوں نے حضرت سعید بن عامر ؓ کو حمص کا والی مقرر کیا تو سعید بن عامر ؓ نے معذرت کی اور بہانہ تراش لیا کہ میں اس عہدے کااہل نہیں ہوں میرے ناتواں کندھوں پر اس عہد ے کا بوجھ نہ ڈالئیے لیکن عمر فاروق ؓ نے اصرار کرکے ان کو والی بناکر حمص بھیجاکچھ عرصہ بعد امیر المو منین نے حمص کا دورہ کیا تو حمص کی بڑی مسجد میں لوگوں نے والی کے خلاف پانچ بڑی شکا یتیں پیش کیں پہلی شکایت یہ تھی کہ جب یہاں آئے تو صبح کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے لوگوں کے مسائل سنتے تھے موقع پر احکامات دیتے تھے اور فریادوں کی شنوائی کرتے تھے اب ایسانہیں کرتے نمازفجر کے بعد گھر جاتے ہیں اور نماز چاشت کے وقت مسجد آتے ہیں ہم کو تب تک انتظار کرنا پڑتا ہے، دوسری شکایت یہ تھی کہ ہمارا والی دن کے وقت عوام سے ملتا ہے عشاء کی نماز کے بعد کسی سے نہیں ملتا تیسری شکایت یہ تھی کہ سات دنوں میں ایک دن گھر سے باہر نہیں آتا، گھر پر رہتا ہے پانچویں شکایت یہ تھی کہ کبھی کبھی ہمارے والی پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور اچانک رو رو کر ہلکان ہو جاتا ہے، ساری شکایات سننے کے بعد حضرت عمر ؓ نے سعید بن عامر ؓ سے ان شکایات کی بابت دریافت کیا حمص کے والی نےامیر المو منیں کو جس طرح جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کے اندر سنہرے حروف میں لکھا ہواہے پہلی شکایت کا جواب یہ تھا کہ کچھ عرصہ سے میر ی گھر والی بیمارہے میں نماز فجر کے بعد گھر جاکر پانی بھرتا ہوں گھر کی صفائی کرتا ہوں، آٹا گوندھتا ہوں نا شتہ تیار کرتا ہوں چاشت تک ان کاموں کو نمٹاکر مسجد میں آتا ہوں رات کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے کہ دن کا وقت مخلوق کو دونگا رات کا وقت صرف خالق کو دوں گا،رات کو میں اپنے خالق اورمالک کی عبادت میں گذارتا ہوں اس لئے گھر سے باہر نہیں نکلتا، سات دنوں میں ایک دن غائب رہنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس ایک ہی جو ڑا کپڑا ہے چھ دن اس کو پہنتا ہوں ساتویں دن دھوکر سکھاتاہوں اوراگلے دن پھر پہن کر باہر آجاتا ہوں، اچانک رورو کر ہلکان ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے حمص کے والی نے کہا جب کسی واقعے کے بارے میں سن کر موت یاد آتی ہے تو مجھے رونا آتا ہے کہ موت کے وقت مجھے ایمان کی مو ت نصیب ہوگی یانہیں، اس کے بعد انہوں نے التجا کی کہ مجھے اس عہدے سے سبکدوش کیا جائے، حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ اس عہدے پر تم سے زیادہ موزوں شخص نہیں آسکتا، عہد فاروقی میں ایک صو بے کے گورنر کی سادگی اور کفایت شعاری کایہ معیار تھا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں