78

دادبیدداد۔۔۔۔۔مشکل فیصلے۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

خیبرپختونخواہ کی حکومت نے دومشکل فیصلوں کابوجھ اپنے سرپر لیا ہے دونوں اچھے فیصلے ہیں مگر ہمارا معاشرتی،سماجی اور سیاسی مزاج ایسا ہے کہ ہم اعتدال اور میانہ روی کاراستہ چھوڑکرانتہاپسندی کی راہ پرچل پڑتے ہیں ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جاتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ درمیان میں بھی کوئی راستہ ہے یانہیں؟درسی کتابوں کے بارے میں نگران حکومت کا یہ فیصلہ سراہنے کے قابل تھا جس کومنتخب حکومت نے برقرار رکھا،2003میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے سرکاری سکولوں میں درسی کتابوں کی مفت تقسیم کاکام شروع کیا تھا اس کے بعد جتنی حکومتیں آئیں ان کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ہمت نہیں ہوئی وہ اس کی سیاسی قیمت چکانے کے قابل نہیں تھیں اس لئے ایک نامناسب کام ہوتا رہا2023ء میں نگران حکومت نے اس سلسلے کو بتدریج ختم کرنے کی منصوبہ بند ی کی اس کام میں تین بڑے نقائص تھے مفت کتابیں لینے والوں میں امیر اور غریب کاکوئی امتیازنہیں تھا،تعلیمی سال شروع ہونے کے 7ماہ گذرنے تک مفت کتابیں صوبے کے تمام اضلاع میں تقسیم نہیں ہوتی تھیں اور تیسری خرابی یہ تھی کہ صوبائی خزانے پرناروا بوجھ تھا جس کا استفادہ کنندہ کوئی نہیں یعنی900روپے کی کتابیں خریدنے کی سکت ہرگھرانے میں تھی کسی نے بھی مفت کتابوں کے لئے قرارداد جمع نہیں کرائی تھی مفت کتابوں کی جگہ اگرنادار طالب علموں کے لئے وظیفہ مقرر کیاجاتا تو بہتر ہوتااس پر لوڈنگ،ان لوڈنگ،ڈمپنگ وغیرہ کے غیرضروری اخراجات بھی نہ آتے نادار طالب علموں کووظیفے کی صورت میں مالی امداد ملتی سوات کے والی صاحب میاں گل جہانزیب طالب علموں کی ایسی مدد کیا کرتے تھے انگریزوں نے بھی سکولوں میں میرٹ سکالرشپ کے ساتھ ڈسٹی چیوٹ سکالرشپ رائج کرکے ہونہار طلبہ کے ساتھ ساتھ نادار طلبہ کی بھی حوصلہ افزائی کا راستہ نکالا تھا مستحق اور نادار طالب علموں کی فہرست مرتب کرکے ان کو وظیفہ کے لئے نامزد کرناسکول کے سربراہ یا ہیڈماسٹر کے لئے مشکل نہیں۔دوسرامشکل فیصلہ ہسپتالوں میں ہیلتھ انشورنس سکیم کادوبارہ اجرا ہے یہ فیصلہ اس لئے مشکل ہے کہ ہمارا صوبہ قرضوں تلے دبا ہوا ہے سماجی شعبے کی ترقی کے لئے مالی وسائل دستیاب نہیں ایسے حالات میں ہیلتھ انشورنس سکیم کودوبارہ شروع کرنا بہت مشکل فیصلہ ہے نگران حکومت نے مالیاتی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس سکیم کو ختم کیا تھا عام لوگ اس کو مفت علاج کی سہولت کہتے ہیں اس سکیم میں شناختی کارڈ کو ہیلتھ کارڈ کا درجہ دیاگیا ہے ہرمریض کا10لاکھ روپے تک کا علاج مفت ہوجاتا ہے کیونکہ ہسپتال کو انشورنس کمپنی پیسے دیتی ہے انشورنس کمپنی کوصوبائی حکومت پریمیم کی صورت میں ادائیگی کرتی ہے کیوبا،ناروے اور سویڈن سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے مگر اس میں دیکھا جاتا ہے کی مریض خود اپنے علاج کا خرچ برداشت کرنے کے قابل ہے یا نہیں ہیلتھ انشورنس کی سہولت 100فیصد آبادی کو نہیں ملتی کسی ملک میں 40فیصد کو ملتی ہے کسی ملک میں 30فیصد یا50فیصد کو ملتی ہے یہ سہولت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو علاج کا خرچ نہیں اٹھا سکتے جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں ایک مریض کی سالانہ آمدنی 10کروڑ روپے ہے دوسرے کی سالانہ آمدنی دولاکھ بھی نہیں دونوں کو ہیلتھ انشورنس کی برابر سہولت نہیں ملتی عالمی بینک کے سروے رپورٹ موجود ہیں،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے سروے رپورٹ دستیاب ہیں ان میں ہرگھر کاڈیٹا دیا ہوا ہے ساتھ ہی سکور کارڈ کے ذریعے غربت کی درجہ بندی کی ہوئی ہے شناختی کارڈ کی چیپ میں یہ درجہ بندی دکھائی گئی ہے2022کی مردم شماری میں بھی انہی طریقوں کی پیروی کی گئی اور یہ تمام ڈیٹانادرا کے پاس محفوظ ہے اس لئے ہیلتھ انشورنس کی سہولت صرف غریب گھرانوں اور نادار مریضوں کو دی گئی تومفت علاج کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اورصوبائی خزانے پر غیر ضروری بوجھ نہیں پڑے گا۔مشکل فیصلے ضروری ہیں مگر تدبیر اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہونے چاہئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں