239

مقامی چھٹی سے بلّی تک ۔۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ

تین زبر دست خبریں آگئیں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے پہلی خبر یہ ہے کہ شانگلہ میں امیر مقام کے جلسے کیلئے سکولوں کو مقامی چھٹی دیدی گئی پھر تر دید ہوئی کہ چھٹی شٹی کوئی نہیں بچے اُس روز سکول نہیں آئے دوسری خبر یہ کہ الیکشن کمیشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی کے اندر عہدیداروں کیلئے انتخابات نہیں کروائے تو اسکو 2018کے الیکشن میں پارٹی کا نام اور بلّے کا نشان استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اس پر ایک ستم ظریف نے تبصرہ کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ بلّے کا نشان نہ ملے تو بلّی کا نشان لے لیا جائے یہ جانور مسلم لیگ (ن)کے انتخابی نشان کی خالہ ہے اور خالی خالہ نہیں رشتے میں بھی خالہ ہی لگتی ہے کہانیوں میں بھی خالہ ہی آتی ہے دونوں خبریں دلچسپ ہیں مگر تیسری خبر دونوں سے زیادہ دلچسپ ہے صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی ایک تقریر میں عوام کو یا د دلایا ہے کہ 2013میں خیبر پختونخوا صنعتوں کا قبر ستان بن چکاتھا 2017 میں اس کو سرمایہ کاروں کی جنت کہا جاتاہے یعنی قبرستان سے جنت تک کا فاصلہ ہمارے صوبے نے 4سالوں میں طے کیا جنت سے آگے کوئی منزل نہیں اسلئے اب واپس قبرستان کی طرف سفر جاری ہے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے دبنگ سیاستدان انجینئرامیر مقام کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے پہلا الیکشن ترازو کا نشان لیکر لڑا دوسرا الیکشن سائیکل کے نشان پر لڑا تیسرے الیکشن کیلئے شیر کے نشان کا انتخاب کیا اب شیر پر سوار ہیں اور خیرسے وزیر اعظم کے مشیر بھی ہیں مسلم لیگ (ن)کے صوبائی صدر بھی ہیں اگر جمعیتہ العلمائے اسلام (ف)کے ساتھ معاہدہ ہوا تو مستقبل کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں انہوں نے شانگلہ میں جلسہ کیا تو جلسے کیلئے 6سکولوں کو مقامی چھٹی دیدی گئی یہ چھٹی زبانی کلامی تھی اُس روز بچے سکول جانے کی جگہ جلسہ گاہ میں گئے راستوں پر قطار وں میں کھڑے ہو کر اپنے محبوب اور ہر دلعزیز قائد کا والہانہ استقبال کیا اخباری نمائیندوں نے خبر لگائی کہ امیر مقام کے جلسہ کیلئے مقامی چھٹی ہوگئی محکمہ تعلیم نے سکولوں کے سربراہوں کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھیجا مسلم لیگ (ن)نے دوسطری وضاحت کردی کہ چھٹی نہیں کرائی گئی بچے اُس روز سکول نہیں گئے اگر امیر مقام کے مقامی چھٹی ہوئی تو یہ خبر ہے اگر مقامی چھٹی نہ ہوئی تو یہ ظلم ہے الیکشن کمیشن کی خبر نہ جانے کیسے خبر بن گئی حالانکہ یہ کوئی خبر نہیں تھی پاکستان کی 387سیاسی جماعتوں میں صرف دو پارٹیاں انتخابات کرائی ہیں 385پارٹیوں میں انتخابات کا کوئی دستور نہیں ہے پی ٹی آئی نے 20 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ 2012 میں انتخاب کرائے مگر انتخابات اس کو راس نہ آئے لاڑکانہ اور رائے ونڈ کی طرں بنی گالہ سے عہدیداروں کی نامزدگی درست طریقہ ہے لندن والی سرکار بھی ایسا ہی کرتی ہے الیکشن کمیشن نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا پتنگ کی راہ میں کبھی روکاوٹ حائل نہیں ہوئی شیر کو کسی نے دھکا نہیں دیا تیر کو کسی نے نکال باہر نہیں کیا پاکستان تحریک انصاف پر الیکشن کمیشن کی نوازشات کی وجوہات کیا ہیں 1972 میں سعد اللہ خان کی ایک پیروڈی بہت مشہور ہوئی
آؤ بچو شکل دکھائیں تم کو ٹکا خان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی پاکستان کی
اس طرح کی پیروڈی 2018 کے الیکشن میں کام آسکتی ہے مگر یہ نہیں معلوم حامیوں کے کام آئیگی یا مخالفین کیلئے سود مند ہوگی ،پیروڈی کچھ یوں بنتی ہے
آؤ بچوں وزٹ کرائیں توم کو ایک کپتان کی
جس کی خاطر ہم نے دی قربانی اس نشان کی
اگر بلّے کا نشان نہ ملا تو لامحالہ بلّی کا نشان ہی ہاتھ آجائے گا شیر کی خالہ ہی شیر کا مقابلہ کر سکتی ہے تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ پی ٹی آئی اگلے 3مہینوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کرواکر بلّی کی جگہ بلّا واپس لینا چاہتی ہے ہمارے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو جانے کس نے کہا اور کیسے خبر دی کہ ہم قبرستان سے جنت کی طرف جارہے ہیں مگر جنت ہماری نہیں سرمایہ کاروں کی ہے جنت کہاں ہے ؟کس نے جنت دیکھی ہے ؟پتہ نہیں بقول مرزا غالب
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب خیال اچھا ہے
شکر ہے ،وزیر اعلیٰ نے لوکل گورنمنٹ ،محکمہ صحت ،محکمہ تعلیم ،محکمہ تعمیرات اور محکمہ پولیس کے ہاتھوں میں دی گئی تبدیلیوں کا ذکر نہیں کیا صوبے کی تقدیر بدلنے کا نام نہیں لیا تبدیلی کے سفر میں اپنے حصے کی کامیابیوں کاقصہ نہیں چھیڑا قبراستان ،پل صراط ،دورزخ اور جنت کی کہانی میں الگ مزا ہے یہ حکومت کے کارناموں کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر ہے پشاور ،مردان ،نوشہرہ اور چترال کی حالت کو لوگ ہر روز دیکھتے ہیں قبرستان میں کیا ہے جنت میں کون ہے ؟ یہ کسی کو نہیں معلوم مرزا غالب کہتا ہے ۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زبان تھا نہ سود تھا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں