219

فلسفہ ماہ رمضان المبارک تحریر: محمد صابر گولدور،چترال

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے رمضان کے بارہ روزے بھی مکمل ہو گئے اس ماہ مبارک کوتمام مہینوں کا سرداربھی کہا جاتاہے۔ ماہ رمضان اپنی تر برکتوں،عصمتوں، سعادتوں، رحمتوں اورفضائل کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ لفظ رمضان لغت میں جس کا مطلب ہے جلانایعنی زمین کی تپش سے پاؤں کا جلنا۔یعنی یہ مہینہ گناہوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔بلکہ یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن لوح محفوظ سے آسمان دینا پر نازل کیا گیا۔ (البقرہ) اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دئیے اورجہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ) یہ ماہ عبادات و صداقات اور ایثاروقربانی کا ہے۔اس ماہ مبارک یعنی

رمضان کافلسفہ کیا ہے؟کیونکہ ہر ایک کام اورچیز کے پیچھے ایک فلسفہ کارفرماہوتا ہے۔ہمیں پروردگارعالم کی جانب سے ایک ماہ روزہ رکھنے اور دن کے اوقات میں بھوکہ پیاسہ رہنے کو کہا گیا ہے۔اس میں درپردہ وہ کیا کیا حکمتیں اور راز پوشیدہ ہیں۔ جو کہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں اور جن کا ہم شعور نہیں رکھتے۔ہم سال کے گیارہ مہینے آزادی کے ساتھ کھاتے اورپیتے ہیں۔آخر کیوں صرف ایک ماہ کے لیے ہم سے خالی پیٹ اورپیاسہ رہنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔دراصل روزہ کے ذرایعے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دیکھانا چاہتا ہے کہ انسان اپنے آس پاس دیکھے نظر دوڑائے کہ کوئی غربت و افلاس کی وجہ سے فاقہ کشی اختیار کرنے پر مجبور تو نہیں ہے۔ معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ خالی پیٹ اورکھولے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں۔جن کے پاس نہ تو کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی پینے کے لیے صاف پانی نا ہی سر چھوپانے کے لیے کوئی گھر اور نہ ہی بدن ڈھامپنے کے لیے کوئی مناسب لباس وغیرہ۔۔۔ اوراس پر مزید یہ کہ روزہ اس لیے بھی ہے کہ ہمارا نفس پاک و صاف ہواور غیر ضروری اور ناجائز خواہشات سے اجتناب برتا جائے۔اس کے علاوہ ماہ رمضان کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پورے سال اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتیں بے حساب ہمیں عطا کیے لیکن صرف ایک ماہ کے لیے ہمیں ان نعمتوں سے دور رکھاوہ بھی صرف دن کے اوقات میں۔تاکہ ہم میں تقویٰ،خشیت الہی اوراس کی نعمتوں کا قدر و احساس پیدا ہو اورہم اس کی ان بے شمار نعمتوں کا شکر گزار بن جائیں۔اور ہمیں یہ بھی پتہ چلے کہ واقعی میں اللہ پاک بلا کسی امتیاز کے اپنی نعمتیں ہم پر بارش کی مانند برساتا ہے جس کا سلسلہ جاری ہے اور تا بروز قیامت جاری رہے گا۔پھر بھی ہم کیوں نہ اس کے شکر گزار بن جائیں۔۔۔
ماہ رمضان کا تیسرا پہلوجس کی وجہ سے ایک انسان میں صبر استقامت پروان چڑھتا ہے۔ اس ماہ کے دوران صبر کی خوب مشق کرائی جاتی ہے۔چونکہ دن بھر ایک شخص بنا کچھ کھائے پیئے خود کو تمام چیزوں سے دور رکھاچلا آتا ہے۔لوگوں کی بھیڑ سے چھپ کر اکیلے تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر بندۂ مومن جانتا ہے کہ کوئی اسے دیکھے نہ دیکھے مگر اللہ تعالیٰ اسے ضرور دیکھ رہا ہے۔لہذا تپتی دھوپ میں شدت گرمی اور پیاس کے باوجود صبر سے کام لیتا ہے خود کو ان چیزوں سے روکے رکھتا ہے۔اسی طرح صرف روزہ کھا نے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ زبان کا بھی روزہ ہے انکھوں کا بھی کانوں بھی ہمارے ہاتھوں کا بھی مراد پورے انسانی وجود کا روزہ ہوتا ہے۔دوران روزہ انسان کو اپنی زبان کا صحیح استعمال غیبت اور لغو سے پرہیز ضروری ہے اسی طرح اپنی نظروں کی حفاظت کریں اور اپنے ہاتھوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچائے بلکہ کسی غریب اور مظلوم کے کام آئے۔مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ عموما رمضان کے دنوں میں اہل ایمان آپس میں لڑتے جگڑتے ہیں جو کہ نہایت غلط بات ہے۔اس عمل سے شیطان خوش ہوتا ہے اور روزے کا اصل فائدہ زائل ہوجاتاہے۔کچھ حضرات رمضان کو خود پرکچھ اس طرح سوار کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک ہی بات دہراتے دیکھائی دیتے ہیں کہ میرا روزہ ہے دماغ خراب مت کرویہ مت کرو وہ مت کرو وغیرہ۔۔۔ حالانکہ رمضان رحمتوں کا مہینہ ہے اور یہ ہرگز کسی پر بوجھ نہیں ہے بلکہ افطارکے اوقات میں ایک مسلمان خوشی اورمسرت کے عجیب غریب کیفیت مبتلا ہوتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے بے شمار فوائد ہیں رمضان المبارک کی بدولت ایک بندۂ مومن میں صبر، عاجزی،شکر و قناعت پیدا ہوتا ہے اور یہ ماہ مبارک صحت کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہے۔ماہ رمضان کی بدولت ایک انسان فضول خرچی اور اصراف سے بھی چھٹکارا پاتا ہے۔ رمضان المبارک میں راتوں کا قیام ایمان کو تقویت بخشتا ہے جو کہ رضا الہی کے حصول کا بھی ذریعہ ہے۔اگرترتیب کے حساب سے دیکھا جائے تو قرآن پاک کے تیس پارے اور رمضان کے تیس روزے یکساں ہیں۔یعنی رمضان کی راتوں میں ایک ایک پارہ نمازی سن پاتا ہے جو کہ معتدل اور نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے اورمقتدی صاف آواز میں قاری قرا ٓن کو سن بھی سکتا ہے۔ بجائے جلدی کے دو دو،تین تین پاروں کی تلاوت کے جس میں مقتدی قرآن کے الفاظ واضح سن نہیں پائے اور ہمارے ہاں بعضی جگہوں میں تو چار چار پارے بھی پڑھے جاتے ہیں۔حالانکہ مکہ اور مدینہ میں بھی ایک ایک پارہ پڑھا جاتا ہے۔کیونکہ قرآن ہم سے کہتا ہے کہ اور قرآن کو ٹہر ٹہر کر پڑھو آرام کے ساتھ پڑھو، خوش الحانی کے ساتھ پڑھو۔بہرحال ایک پارے سے زیادہ پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہ بات مساجد کے مقتدی ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کتنے پارے سننے کے استطاعت رکھتے ہیں بات اجر و ثواب کی ہے۔رمضان کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات دلاتاہے اب جبکہ ہم دوسرے عشرے میں داخل ہو چکے ہیں۔اور تیسرے عشرے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ رمضان المبارک اختتام پذیر ہوجانے کے بعد ہدیہ میں اللہ رب العزت ہمیں عید سعید کا تحفہ دیتے ہیں۔جو کہ خوشیوں مسرتوں اور جشن کا دن ہے۔ جس دن اللہ پاک اپنی رحمتوں کا ظہور فرماتے ہیں اور سب کو چاہے امیر ہوں غریب ہوں نیک ہوں کہ بد سب کو خوشیاں بھانٹنے کی ہدایت کرتے ہیں آپس میں پیار و محبت عام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔رمضان المبارک کی برکت سے اللہ رب العزت اہل ایمان کے گناہ معاف فرماتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیتے ہیں جس کی بدولت عید کے دن سب یکجا ہو کر اس کی حمدو ثناء کرتے ہیں۔ اور اس کا شکر بچا لاتے ہیں کہ اس نے ہمیں رمضان دیا اور پھر اپنے فضل سے عید کی پر مسرت خوشیوں سے بھی ہمکنار کیا۔واقعی رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے ہمیں اس کے فضائل و برکات کے ساتھ ساتھ اس کے فلسفے کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا تبھی ہم اس کے عجائبات اور اسرارو رموز سے واقف ہونگے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں