میاں نوازشریف کی وطن واپسی۔۔۔۔پروفیسر مظہر
حکمت کی عدیل النظیر کتاب میں درج کر دیا گیا ’’کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشکل نہ کر دے کہ انصاف سے پھِر جاؤ‘‘ (البقرہ)۔ تاریخِ اسلام ایسے زندہ جاوید عادلوں کے افکارو خیالات کے تابندہ و درخشندہ نقوش سے جگمگا رہی ہے جن کے فکر کی گہرائی و گیرائی خلقِ خُدا کے لیے مشعلِ راہ ہے جبکہ اِس کے برعکس جب میزانِ عدل کسی زورآور کی وجاہت کے خیال سے اُس کی طرف جھُک جاتی ہے تو ایسے عادلوں کو تاریخِ عدل کی پیشانی پر بدنما داغ کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے موڑ آئے جہاں عادلوں کے قدم ڈگمگائے اور وہ ارضِ وطن کی پیشانی کو عرقِ ندامت سے تَر کر گئے۔ ایسا ہی ایک متنازع فیصلہ پاناما کیس کا بھی تھا جس پر جابجا بحث جاری ہے اور اب یہ تاریخ ہی طے کرے گی کہ یہ فیصلہ تاریخِ عدل کی تابندگی کا باعث بنے گا یا سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ بہرحال طے کہ عالمی صداقتیں اور ابدی حقیقتیں کبھی مصلحتوں کے اندھیروں میں گُم ہوتی ہیں نہ خوشبوئیں زمان ومکاں کی پابند۔
شریف فیملی کو سیاسی کھیل میں بڑھتی ہوئی تمازت کی حدت صاف محسوس ہو رہی ہے لیکن پھر بھی میاں نوازشریف لندن سے واپس آ کراحتساب عدالت میں پیش ہوگئے۔ عدالت میں پیشی کے فوراََ بعد اُنہیں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اُن کے وکیل خواجہ حارث نے حاضری سے استثنا کی درخواست دائر کی جس پر عدالت نے کہا کہ اِس درخواست پر فردِجرم عائد ہونے کے بعد غور کیا جائے گا۔ میاں نوازشریف اور اُن کے اہلِ خانہ پر2 اکتوبر کو فردِ جرم عائد ہوگی۔ احتساب عدالت نے حسن نواز ،حسین نواز ،مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے اُنہیں بھی 2 اکتوبر کو طلب کر لیا ہے ۔
نہ صرف شریف فیملی بلکہ اکابرینِ مسلم لیگ (ن) کو یقین کہ عدل کے ایوانوں کی فضا اُن کے حق میں سازگار نہیں اور فیصلہ وہی ہوگا جو ’’زورآوروں‘‘ کی مرضی ہوگی۔ اِس کے باوجود بھی میاں صاحب نے 26 ستمبر کو احتساب عدالت کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا۔ یہی فرق ہے ایک سیاستدان اور ڈکٹیٹر میں۔ ذوالفقارعلی بھٹو عدالت کے حکم پر پھانسی پر جھول گئے ،بینظیر بھٹو عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں، سیّد یوسف رضاگیلانی عدالت ہی سے نااہل ہو کر گھر چلے گئے اور میاں نوازشریف نے بھی عدالت ہی کے حکم کوتسلیم کرتے ہوئے فوری طور پر استعفےٰ دے دیا ،لیکن ایک سابق ڈکٹیٹر (پرویزمشرف) گھر سے نکلا عدالت میں پیش ہونے کے لیے لیکن عدالت میں پیشی کی بجائے ملٹری ہسپتال میں پناہ لے لی ۔ پھر زورآوروں نے اُس کی ملک سے باہر جانے کی راہ ہموار کردی، بہانہ کمر درد کا بنا لیکن وہ ڈکٹیٹر تو جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بھی ’’تھرک‘‘ رہا تھا۔ بس یہی فرق ہے کمزور سیاستدانوں اور زورآوروں میں۔ اب تو ہماری عدلیہ بھی ماشاء اللہ اتنی توانا ہو چکی ہے کہ جو چاہے اُس کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کے سامنے بھلا کون ٹھہر سکتا ہے۔
ہم نے سُن رکھا تھا کہ سیاست کے سینے میں دِل نہیں ہوتا، اب اِس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا۔ میاں نوازشریف کی اہلیہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلاء ہیں۔ لندن میں اُن کے یکے بعد دیگرے تین آپریشن ہو چکے ہیں۔ میاں نوازشریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے لندن گئے تو کچھ شقی القلب تجزیہ نگاروں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ہر طرف یہی شور تھا کہ میاں نوازشریف قصّۂ پارینہ بن چکے لیکن جونہی اُن کی واپسی کا اعلان ہوا ،اِن ’’بزرجمہروں ‘‘نے اپنے تجزیوں پر اظہارِ ندامت کی بجائے میاں صاحب کی واپسی کے فیصلے کی توصیف شروع کر دی البتہ کچھ افلاطونی تجزیہ نگار یہ کہتے بھی پائے گئے کہ یقیناََ میاں صاحب کسی ڈیل کے نتیجے میں ہی واپس آرہے ہوں گے۔ عمران خاں کینسر کے اِس کرب سے بخوبی آشنا ہیں کیونکہ اُن کی والدہ محترمہ بیگم شوکت خانم نے اِسی مرض میں مبتلاء ہو کر اُن کے ہاتھوں میں دَم توڑا، شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانے کی وجہ بھی یہی تھی لیکن حیرت ہے کہ اُنہوں نے بھی کہہ دیا کہ لندن میں دو ’’گارڈفادر‘‘ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اب نوازشریف بھی لندن ہی سے خطاب کیا کریں گے۔ گاڈ فادر کا حوالہ اپنے اختلافی نوٹ میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دیا تھا پھر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ’’سِسلی مافیا‘‘ کا حوالہ دے دیا۔ اب کپتان میاں نوازشریف کے لیے جاوبے جا یہی الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے تو سُنا تھا کہ جج صاحبان خود نہیں بولتے ،اُن کے فیصلے بولتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو جج صاحبان بھی بولتے اور خوب بولتے ہیں اور جب اُن کے فیصلے بولتے ہیں تو وہ بھی متنازع اور ناقابلِ یقیں۔ اب سارا معاملہ احتساب عدالت کے سامنے ہے۔ احتساب جج کو حضورِاکرم ﷺ کا یہ فرمان سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک گھڑی کے عدل کا اجر ساٹھ سال کی عبادت سے زیادہ ہے کیونکہ عبادت کا فائدہ صرف عابد کو پہنچتا ہے اور عدل کا فائدہ ہر خاص وعام کو ملتا ہے ۔
نیب تو پاناما کیس کے سلسلے میں ہاتھ کھڑے کر چکی کیونکہ ’’کرشمہ سازوں ‘‘ نے نیب کو کیس احتساب عدالت کو ریفر کرنے کے لیے نہ صرف محض پینتالیس دِن دیئے بلکہ اپنے حکم پر عمل درآمد کے لیے ایک محترم جج بھی بطور نگران مقرر کر دیئے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ نگران جج بھی وہی جو اُس تین رکنی بنچ کا حصہ تھے جس نے میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ دیا۔ اسی لیے نیب نے اُسی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انحصار کیا جس کی متنازع دھجیاں جا بجا بکھری نظر آتی ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر کو اتنا وقت ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے طور پر تفتیش کر سکیں۔ اِسی لیے اب سارا معاملہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر ڈال دیا گیا ہے جو احتساب عدالت میں استغاثہ کی مدد کریں گے۔اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر ہی کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ وہی رپورٹ ہے جس کی تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں نہ صرف تعریف و توصیف کی بلکہ اُس کے ارکان کو اپنے حفاظتی حصار میں بھی لے لیاالبتہ اپنے حتمی فیصلے میں معزز عدالت کوئی ایک نکتہ
بھی سامنے لانے سے قاصر رہی جو میاں نوازشریف یا اُن کے خاندان میں سے کسی بھی شخص کا کوئی غلط عمل سامنے لا سکتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نیب کو الزامات کی فہرست تو تھما دی گئی ہے لیکن تحقیقات کا آپشن نہیں دیا گیا کیونکہ تحقیقات تو زورآور کر چکے اور فیصلہ بھی ہو چکا۔