تیرے عشق نچایا ۔۔۔۔تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
پنجاب کی زرخیز دھرتی نے ایک سے بڑھ کر ایک پنجابی صوفی شاعر پیدا کئے لیکن جو شہرت عزت بلند مقام حضرت بلھے شاہ کو ملا وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہو سکا تما م ارباب علم و دانش اِس بات پر متفق ہیں کہ پنجابی زبان کے سب سے بڑے صوفی شاعر حضرت بلھے شاہ ہیں پنجابی کی شاعری میں اِن کی برابری کو ئی دوسرا نہیں کر سکتا آپ کی الہامی شاعری سے معرفت الہی کے ایسے چشمے پھوٹتے ہیں کہ جو بھی سن لیتا خدا ئے لا زوال کے عشق میں مست ہو جا تا بلھے شاہ کی شاعری میں جو سوز وگداز اورشراب معرفت کا نشہ محسوس ہو تا ہے وہ مرشد سے بے پنا ہ محبت ہی ہے جس طرح حضرت مو لا نا جلال الدین رومی کو اپنے مرشد شیخ حضرت شمس تبریز کی جدائی اورہجر میں ایک ضخیم دیوان لکھ ڈالا مو لانا روم کا مرشد کے عشق میں فنا ہو نا اِس چیز سے نظر آتا ہے کہ غزلیات کے مقطع میں اپنے نام کہ جگہ حضرت شمس تبریز کا نا م لکھ کر آتش عشق کی آنچ کو سرد کر تے رہے اِسی طرح حضرت بلھے شاہ نے بھی اپنی کا فیوں میں جگہ جگہ حضرت عنا یت قادری کا نام لکھ کر اپنی تڑپتی سلگتی بے چین روح کو سکون دیا ہے مرشد سے دیوانہ وار عشق کی بدو لت ہی بلھے شاہ کو ہم پنجاب کے ہی نہیں دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں شامل کر سکتے ہیں ان کی شاعری میں جو ندرت بے با کی حقیقت پسندی اور تخیل نظر آتا ہے وہ انہیں حضرت مو لا نا روم کے برا بر لا کھڑا کر تا ہے بلھے شاہ کے کلا م میں شیرینی اور حلا وت کو دیکھ کر ہی اہل بصیرت آپ کو حلوائے پنجاب کا لقب بھی دیتے ہیں بلھے شاہ حق تعالی کے عشق میں غرق ہو کر خو دکو بھی بھلا بیٹھے تھے آپ فرما یا کر تے تھے حکما کے نزدیک انسان کے مٹیریل میں آگ پانی مٹی ہوا یعنی عنا صر اربعہ شامل ہیں مگر میرے نزدیک ایسا نہیں ہے میری نظر میں تما م کا ئنا ت کی تخلیق میں نو ر الہی ہی نظر آتا ہے بچے اورماں با پ اسی کا جلو ہ اسی کا نو ر نظرآتا ہے زندگی مو ت پھو ل خو شبو میں بھی اسی کا نو ر نظر آتا ہے کا ئنا ت کے ذرے ذرے میں خدا ہی جلو ہ گر ہے کا ئنا ت اور اس کے مظا ہر خدا ئی جلو ہ گر ی ہے پیدا ئشی طو ر پر بلھے شاہ اضطرابی بے چین فطرت رکھتے تھے اِس پا رے کی طرح مچلتی فطرت نے انہیں کبھی بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا بلھے شاہ ہمیں پو ری زندگی ریا ضت مجا ہدے کی پل صراط پر نظر آتے ہیں آپ کے مر شد نے آپ کی تربیت کے لیے جب عارضی طور پر اپنی چشم کر م ہٹا لی تو بلھے شاہ کی زندگی اندھیر نگر ی میں بد ل گئی دوبا رہ مرشد کی نظر میں محبوب ہو نے کے لیے اپنے دادا مرشد حضرت محمد غوث گوا لیا ری کے مزار پر انوار پر گئے وہاں کئی روز مشیت فریا د و فغان میں کشکو ل پھیلا ئے بیٹھے رہے اور پھر دادا مرشد کی نظر ہو ئی تو میاں تان سین کی قبر پر مو جود بیری کے درخت کی ڈھائی پتیاں کھا کر امید کی کرن اپنی جھو لی میں لیے واپس قصور تشریف لے آئے اور اگلے ہی دن آستانہ مرشد حضرت عنایت قادری حاضر ہوئے کیونکہ آپ کا داخلہ مر شد خانے میں بند تھا لہذا بلھے شاہ نے دوبا رہ داخلے کا عجیب و غریب طریقہ اپنا یا جس سے آپ رہتی دنیا تک امر ہو گئے ۔ آپ کیونکہ کا فی عرصے سے آستانہ مرشد سے غا ئب تھے اِس لیے نئے قوال آگئے تھے آپ ان قوالوں سے ملے اوردرخواست کی کل جب تم مر شد کے سامنے قوالی پیش کرو تو ان کے سامنے ایک گا نے والی کی بہت زیا دہ تعریف کر نا تا کہ مرشد بھی اس گا نے والی کی آواز سننے کی خوا ہش کریں اِس طرح میں مر شد کے سامنے جا سکوں گا تو قوالوں نے بلھے شاہ سے پوچھا وہ مغنیہ کو ن ہے جو بہت سریلا گا تی ہے تو بلھے شاہ نے التجا آمیز لہجے میں کہا وہ میں ہو ں جو عورت کے روپ میں حضرت عنایت قادری کے سامنے جا ں گا قوالوں نے انکا ر کر دیا کہ اِس میں خطرہ ہے اگر حضرت عنایت قادری نا راض ہو گئے تو ہما ری روزی روٹی بند ہو جا ئے گی اور آخر تم کیوں عورت کے روپ میں ان کے سامنے جانا چاہتے ہو تو بلھے شاہ نے اپنی داستان فراق سنائی کہ کو ئی نیا یا اجنبی نہیں ہو ں میں مر شد کا لا ڈلا مرید بلھے شاہ ہوں ا ایک وقت تھا جب میں مرشد کی آنکھ کا تارا تھا لیکن پھر کسی وجہ سے مر شد کی چشم کرم مجھ سے اٹھ گئی اب نہ میری یہ زندگی رہی اور نہ ہی آخرت میں کوئی زندگی میں آخرت سنوارنے کے لیے مرشد کو منا نا چاہتا ہوں کیونکہ میرا داخلہ مرشد خا نے بند ہو چکا ہے اِس لیے میں عورت کے بھیس میں اندر جا کر اپنی حالتِ زار بیان کر نا چاہتا ہوں اپنی بے گنا ہی اور بے پنا ہ عشق و احترام کا احساس دلا نا چاہتا ہوں شاید اِس طرح مرشد کو میری حالت زار پر رحم آجا ئے وہ مجھے معاف کر دیں پھر سے اپنی آغوش شفقت میں لے لیں ۔ بلھے شاہ قوالوں کے سامنے آہوں سسکیوں ہچکیوں سے زاروقطار رو کر اپناحالِ غم اورداستان ہجر سنا رہے تھے بلھے شاہ کی حالت سے قوال بھی متا ثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اب قوالوں نے بلھے شاہ سے وعدہ کیا کہ وہ حضرت عنایت شاہ قادری کے سامنے اس کے گا نے اور فن کی خو ب تعریف کریں گے شاید مرشد کا پیما نہ شفقت چھلک پڑے اور تمہیں مرشد کی با رگا ہ میں حاضری کا مو قع مل جائے۔ اور پھر اگلے دن جب قوال با رگاہِ مرشد میں حاضر ہو ئے تو عرض کر نے لگے یا شیخ آجکل ہر طرف ہندوستان کی مشہور گا نے والی کی شہرت پھیلی ہو ئی ہے ہر طرف اسی کے گا نوں کا چرچہ ہے اس کے فن کے مظا ہرے جہاں بھی ہو تے ہیں لو گ اس کے دیوانے ہو جاتے ہیں وہ جگہ جگہ اپنے فن کا مظا ہرہ کر چکی ہے اب وہ آپ کی با رگاہ میں اپنے فن کا مظا ہرہ کر نا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ لوگوں سے تو بہت تعریف اور داد لے چکی آپ مردِ درویش ہیں اگر آپ کی تو جہ حاصل کر سکوں تو میری دنیا و آخرت شاید سنور جا ئے قوالوں کی با تیں سن کر حضرت عنا یت قادری دلنواز تبسم سے مسکرائے اور بو لے ہم بھی اسے جانتے ہیں جمعہ کے دن اس مغنیہ کو بھی ساتھ لیتے آنا ۔ قوالوں نے جب آکر بلھے شاہ کو خو شخبری سنا ئی تو بلھے شاہ کی خو شی کا ٹھکانہ نہ رہا شدت جذبا ت سے دھا ڑیں مار مار کر رونے لگے کہ آخر کا ر غم فراق سے نجات ملنے والی ہے جب سے بلھے شاہ مرشدکے دیدار سے محروم ہو ئے تھے ان کے با طن میں ہجر وفراق کے ریگستان پھیلے ہو ئے تھے فراق کا تھوربلھے شاہ کی ہڈیوں کو چاٹ رہا تھاہجر کی آگ میں بلھے شاہ کی نس نس سلگ رہی تھی آنکھوں کے سوئے رو رو کر خشک ہو گئے تھے بلھے شاہ کو اپنے بے جان لا شے میں زندگی کاا احساس ہو نے لگا ۔ ابھی مجلس سما ع میں کئی دن با قی تھے بلھے شاہ کے لیے ایک ایک لمحہ صدی کے برابر تھا آخر کا ر طویل صبر آزما دنوں اور انگا روں پر گزری راتوں کے بعد وہ ساعت دیدار آئی کہ مرشد مجلس میں جلو ہ آفروز ہیں بلھے شاہ کی بے چین روح مرشد کے قدموں سے لپٹنا چاہتی تھی لیکن بلھے شاہ اِس خو ف سے کہیں معاملہ خراب نہ ہو جائے زنانہ لبا س میں قوالوں میں بیٹھ کر ٹکٹی با ندھے مرشد کو تکنے لگے اور پھر وہ گھڑی بھی آئی جن کا بلھے شاہ کو صدیوں سے انتظار تھا قوالوں نے اپنا عارفا نہ کلام شروع کیا پھرقوالوں کی با ری ختم ہو ئی تو حضرت عنایت قادری بولے وہ مغنیہ کہاں ہے جس کی شہرت سے زما نہ گو نج رہا ہے اذن مرشد پا کر عاشق جانباز بے باک صوفی درویش مجلس کے درودیوار وجد میں لانے کو بے قرار تھے کہ بلھے شاہ آگے بڑھے لوگوں نے آج ایک نئی آواز سنی وہ گھنگھرو تھے جو بلھے شاہ نے نگا ہِ کرم کے لیے پیروں میں با ندھ رکھے تھے پھر جانباز درویش کی آواز سے ہوا ئیں فضائیں آسمان زمین درو دیوار وجد میں آکر جھومنے لگے لفظ نشتر بن کر روح کو گھا ئل کر رہے تھے ۔
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
سانوں گھا ئل کر کے فیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچا یا کر کے تھیا تھیا
مرشد بے قرار ہو کر بو لے ہمیں سب خبر ہے تو بلھا ہے ۔ رقص تھم گیا دیوانہ مرید مرشد کے قدموں سے لپٹ گیا شاہا میں بلھا نہیں بھلا (بھولا ہوں ) جسے بھلا دیا گیا مرشد جذب ومستی میں گلے سے لگا یا اور کہا تو اِس جہاں اوراگلے جہاں میں میرا ہی بلھا ہے یوں بلھے شاہ مرشد کے عشق میں لا زوا ل کر دار کے طو رپر تاریخ کے کینوس پر امر ہو گئے۔