داد بیداد۔۔۔۔قطر میں ایک اور فوجی اڈہ ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
قطر کی حکومت کے ساتھ یورپی یونین نے العَبید کی بندرگاہ پر فوجی اڈہ قائم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اس سے پہلے قطر نے دوحہ میں امریکی فوج کی سنٹرل کمانڈ کو فوجی اڈہ فراہم کیا تھاافغانستان ، عراق، لیبیا اور شام پر حملوں کے لئے امریکہ نے دوحہ کا فوجی اڈہ استعمال کیا تورا بورا پر کارپٹ بمباری کے لئے بی52-طیارے دوحہ میں لنگر انداز بحری بیڑے سے اڑان بھرتے تھے
تیر کھا کے دیکھا جو کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
پاکستان ، میانمر ، افغانستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک اگر مغربی طاقتوں کے ساتھ اس طرح کے یکطرفہ معاہدے کرتے ہیں تو اس میں معاشی مجبوری کا ہاتھ ہوتا ہے غریب ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں اس لئے مغربی ممالک سے امداد لیتے ہیں اور اپنی قومی غیرت و حمیت کی قیمت پر اُن کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں جنرل ضیاء الحق نے معاشی مجبوری کے تحت ایسے معاہدے کئے، جنرل مشرف نے بھی معاشی مجبوری کو سامنے رکھ کر اس طرح کے معاہدے کئے لیکن قطر اور دیگر عرب ریاستوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت کے ساتھ ساتھ تیل اور گیس کے ذخائر کی بے پناہ دولت عطا فرمائی ہے ان کو کوئی معاشی مجبوری نہیں پھر وہ مغربی ممالک کے ساتھ اپنی آزادی ، خود مختاری ، علاقائی سا لمیت اور قومی غیرت کے خلاف معاہدے کیوں کرتے ہیں ؟ یورپی یونین کے اڈے کے لئے اپنی بندرگاہ پیش کرکے قطر کی ریاست جواب میں کیا فائدے حاصل کرے گی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ جہالت کی 100برائیوں میں سے ایک برائی قومی غیرت کا سودا کرنے کی عادت ہے عرب دنیا اکیسویں صدی میں جہالت کے دور سے گذر رہی ہے انسانی وسائل میں بہت غریب ہے قطر کے پاس مالی وسائل تو بے شمار ہیں تعلیم یافتہ قوم نہیں ہے پڑھے لکھے نوجوان نہیں ہیں فرانس، جرمنی ، برطانیہ ، امریکہ اور بھارت کے پڑھے لکھے لوگ قطر میں اہم عہدوں پر کام کرتے ہیں تیل کی ریفائنری چلانے سے لیکر گیس کے بڑے بڑے پلانٹ اور جہارزاں کمپنیوں کے انتظام و انصرام تک اہم عہدے غیر ملکیوں اور زیادہ تر غیر مسلموں کے پاس ہیں اگلے 100سالوں کیلئے بھی عرب ریاستوں کی کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں جس کی مدد سے عرب مسلمان کسی بڑی کمپنی کا چیف ایگزیکیٹو بن سکے ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسروں کی محتاجی اور تعلیم کے میدان میں غیروں پر انحصار کی وجہ سے عرب ریاستوں کی سیاسی پالیسیاں غیروں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں یہاں پر انسانی وسائل کا مقابلہ مادی ترقی کے ساتھ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی وسائل کی ترقی کے بغیر مادی ترقی کی کوئی حیثیت نہیں اگر انسانی وسائل دستیاب نہ ہوں تو مادی ترقی کا فائدہ بھی دشمن کی جھولی میں گرتا ہے آج کل دولت مند عرب ریاستوں کا ایسا ہی حا ل ہوا ہے اور یہ کسی بھی طرح قابل رشک صورت حال نہیں نصف صدی پہلے عرب ریاستوں کے پاس مادی وسائل اگر کم تھے قومی غیرت ، ملّی حمیت اور اسلامی وقار کی کمی نہیں تھی نصف صدی گذرنے کے بعد مادی وسائل ہاتھ آگئے ہیں عالیشان عمارتیں بن گئی ہیں شاہراہوں کی تعمیر قابل رشک منظر پیش کرتی ہے بحری بندرگاہ اور ہوائی اڈے یورپ اور امریکہ کے معیار پر آگئے ہیں مگر ملک کا انتظامی ڈھانچہ غیروں کے ہاتھ میں ہے اہم عہدے غیروں کے پاس ہیں اور غیروں نے ہر ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے آج سعودی عرب ، کویت ، عراق ، ابو ظہبی ، شارجہ ، اومان ، قطر اور دیگر دولت مند عرب ریاستوں کی حالت یہ ہے کہ وہ قومی نوعیت کا کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جن لوگوں کو اسلامی دنیا کی رہنمائی کرنی تھی وہ اسلامی دنیا سے منہ موڑ کر مغربی اقوام کے دست و بازو بن چکے ہیں قطر میں یورپی یونین کا فوجی اڈہ اس کی واضح مثال اس لئے بھی ہے کہ اس ملک میں یہ دوسرا فوجی اڈہ ہے جو غیروں کے لئے وقف ہوچکا ہے مسلمانوں کے سامنے اس وقت مستقبل کا کوئی نقشہ کوئی ایجنڈا ، کوئی روڈ میپ نہیں ہے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا نام بدل کر اسلامی ممالک کی تنظیم رکھنے کے بعد اس کی حیثیت مردہ گھوڑے جیسی ہوگئی ہے عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کو پلیٹ میں رکھ کر عالمی قوتوں کے سامنے رکھا گیا ہے دونوں تنظیموں کے اجلاس اُس وقت بلائے جاتے ہیں جب امریکہ اور یورپی ممالک کو ضرورت پڑتی ہے قیادت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی دنیا قیادت کے بحران سے گذر رہی ہے اس پس منظر میں قطر کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ العبیدکی خوبصورت بندرگاہ پر فوجی اڈہ قائم کرنے کا معاہدہ کرنا تعجب کا مقام نہیں ، اچھنبے کی بات نہیں محکوم اور غلام قوموں کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جہالت کی فصل اسی قسم کی پیداوار دیتی ہے بقول علامہ اقبال ؒ
اے وائے ناکامی ! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا