254

زبان کا پھسلن………آز: ظہیرالدین

1561ءہے اور اگرہ قلعہ کے اندر انگوری باغ کے ایک فوارے کے اردگرد مغل بادشاہ اکبر کے مصاحبین انتہائی اضطراب و پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں اور شاہی جلاد تلوار ہاتھ میں لئے نمودار ہورہے ہیں جن پر سب کی نگاہیں ان پر لگی ہوئی ہیں جس کے بے نیام تلوار کی چمک ہی بہت سوں کی ہوش اڑادینے کے لئے کافی ہے۔ ادھر مغل شہنشاہ کا ریجنٹ اور رضاعی ماںماہام اناگہ اپنے لخت جگر آدم خان کی طرف دیکھتی ہیں تو کبھی آسمان کی طرف ۔ دونوں مجرموں کی صورت بنائے چپ چاپ کھڑے ہیں اور جلاد کی آمد کے منتظر تاکہ ان پر آنے والی قیامت آکر گزرہی جائے ۔ اتنے میں کم سن بادشاہ گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے موقع پر پہنچ جاتے ہیں جب جلاد کسی بھی لمحے تلوار کو ہوا میں لہرا کر آدم خان کا زبان بدن سے الگ کرنے والا تھا جسے وہ حتی المقدار باہر نکال کر کٹ جانے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔اتنے میں اکبر آکر اپنے رضاعی بھائی کو گلے لگالیتا ہے اورجلاد کو ہٹ جانے کا اشارہ کرتا ہے ۔قصہ اس بات سے شروع ہوا تھاکہ اس دن صبح آدم خان اپنی ماں کے ساتھ گفتگو کے درمیاںزبان کے پھسل جانے کی وجہ سے بادشاہ کے لئے ‘گداگر وں کا بادشاہ’کے الفاظ استعمال کیا تھا اور یہ ماں کے دل پر تیر بن کر گرگئے تھے اور وہ اس گستاخی پر اپنے لخت جگر کا زبان کاٹنے کا نہ صرف فیصلہ کیا تھا بلکہ اس پر عملدرامد کے لئے وقت مقررکیا جس کے سامنے تابع فرمان بیٹے نے بھی سرتسلیم خم کردیا تھا۔ یہ خبر جب بادشاہ تک پہنچی تو انہوںنے وقت ضائع کئے بغیر خود ہی موقع پر پہنچ گئے اور معافی کا اعلان کرکے بھائی کی زبان کٹنے سے بچادی ۔ مریم اورنگزیب نے بھی اپنے سیاسی mentorاور پارٹی قائد میاں نواز شریف کے شان میں زبان کی پھسلن کی وجہ سے ایسی گستاخی کربیٹھی جس کی فوٹیج ٹی وی چینلز نے جب سوشل میڈیا کے حوالے کیا تو کئی لاکھ لوگ اسے دیکھا اور پی ٹی آئی کے کارکنان نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس دور میں ماہام کی طرح اظہار ندامت شائد مشکل ہے اور نہ ہی بڑوں میں وہ بڑا پن نظر آتا ہے کہ وہ فوری طور پر معاف کرکے بڑا پن کا ثبوت دے۔ ماہام اور ان کے بیٹے کے درمیان کوئی نہیں تھا لیکن اس کی جذبہ وفاداری اور ضمیر پر قربان جائیے کہ اسے بادشاہ کے شان میں غیر ارادی گستاخی بھی ہضم نہیں ہوپاتی۔ 40سالہ مریم اورنگزیب مریم نواز کے ساتھ اپنی خصوصی تعلق کی بنا پر سابق نواز شریف حکومت میں نمایان مقام پر تھی اور وزارت اطلاعات کے لئے اپنی انتخاب کو درست ثابت بھی کردی اور شاباش بھی بٹورلی لیکن زبان کا کیا کرے کوئی جوکہ کبھی کبھی پھسل بھی سکتی ہے ۔ انگریزی میں ایک مقولہ ہے کہ پاﺅں کے پھسلنے سے بدن پر زخم لگ جائے گا لیکن زبان کے پھسلنے سے آپ کے تعلق زخم ہوںگے اور یہ کہ زبان کی پھسلن سے لگے زخم بھر جائیں گے لیکن زبان کے پھسل جانے سے لگے زخم کبھی نہیں۔
زبان کے پھسل جانے سے بولنے والے کے منہ سے وہ بات نکل جاتی ہے جوکہ الٹ معنی کے حامل ہوںاورجس سے دوسروں کو ذہنی کوفت لاحق ہوتی ہو جب یہ بات مخاطب شخص سے متعلق ہو۔ انسان غلطی کا پتلا ہوتا ہے جس سے غلطی کا ارتکاب عین ممکن ہے اور گفتگو کے دوران الفاظ کچھ سے کچھ ہوکر زبان سے ادا ہونا عین قدرتی بات ہے لیکن دوسرے کے لئے اسے ہضم کرنا شائد دل گردے کی بات ہوگی جب وہ بدلہ لینے پر قادر بھی ہو۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے وہی چاہے نہ چاہے اس کے زبان پر بھی آجا تی ہے اور یہی بات آسانی سے درگزر کرنے کے راہ میں حائل ہوتی ہے۔اگرچہ نواز شریف کے متعلق کہا جا تا ہے کہ وہ انتہائی تنک مزاج شخصیت کے حامل ہیں اور ان کی قوت برداشت بہت ہی کم مگر چند ایک سالوںکی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیڈرز اس معاملے میں سب سے ذیادہ کمزور واقع ہوئے ہیں جس کے بعد پی پی پی اور پی ٹی آئی کا نمبر آتا ہے۔ پانامہ کیس میں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس آخری مرحلے پر ہے اور عمران خان صبح وشام ان کی نااہلی کے فیصلے کی نوید قوم کو سنارہے ہیں توان ہی دنوں میں پنجاب میں شہباز شریف کابینہ کے ایک وزیر سید ضیغم حسین قادری ایک تقریب میں یہی کہتے ہیں کہ انشاءاللہ نواز شریف نااہل ہوں گے اور ان ہی دنوں جب عمران خان ‘گونواز گو’کے نعرہ مستانہ سے قوم کی لہو گرمارہے تھے تو خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پیر صابر شاہ نے بھی گونواز گو کا نعرہ لگاکر ایک تقریب کے شرکاءکو حیران وپریشان کردیا۔ اب کی بار مریم اورنگزیب نے اس وقت حواس باختگی کے عالم میں اپنے ہی قائد کو چھوٹے قد والا، تنگ ذہنیت والا، نالائق ، نااہل اور سیلیکٹڈ کے القابات کی بوچھاڑ کردی جب وہ میاں صاحب کی چودھری شوگر ملز کے کیس میں گرفتاری کے فوراً بعد میڈیا ٹاک کررہی تھی۔میاں شہباز شریف بھی جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ گزرنے والے شخصیت ہیں جس نے ایک دفعہ کہا تھاکہ برسراقتدار آنے کے چھ ماہ بعد اگر ملک سے بجلی کا خاتمہ نہیں کیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں ہے۔ پی پی پی کے بزرگ رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ کے بھی تقریر کے درمیان زبان کے بریک فیل ہوجاتے تھے اور ایسے کلمات ان کے منہ نکل جاتے تھے جوکہ دیر تک میڈیا کے زینت بنے رہتے۔ پی پی پی کی ایک اور لیڈر نے تو آصف علی زرداری کی عین موجودگی میں ایک تقریب کے دوران جوش خطابت میں جوکچھ کہا وہ تو دھماکے سے کسی طور پر کم نہ تھے جب اس نے کہاکہ موجودہ صدر اور پارٹی کا چیرمین چور ہے ۔ اسی طرح ایک اور موقع پر فریال تال پور نے پارٹی کارکنوںسے کہاکہ انشاءاللہ بلاول بھٹو زردرری شہید ہمارے پاس ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ماہ شمالی وزیر ستان میں وانا کے مقام پر ایک عوامی جلسے کے دوران بلاول بھٹو کے لئے صاحبہ کا لفظ استعمال کیا اور اپنی اس غلطی کو مٹانے کے لئے دوسرے ہی لمحے کہہ ڈالا کہ “ہمارے پاس بلاول کی طرح لکھی ہوئی تقریر نہیں ہوتی “۔ اسی لئے سیانے لوگ کہتے ہیںکہ پہلے بولو پھر تولو تاکہ کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں