353

معماران قوم کے نام….. تحریر : ثمر خان ثمر

آپ نے کبھی سوچنا گوارا کیا ہے کہ والدین کے آپ پر کتنے بڑے احسانات ہیں؟  آپ کے “فردا” کے لئے ان کا “امروز” کیسے گزر رہا ہے؟ آپ کا تعلیمی سفر رواں دواں رکھنے کے لئے وہ کیا کیا مصیبتیں جھیل رہے ہیں؟ وہ کن کن مشکلات سے نبردآزما ہیں؟  اُنھوں نے اپنی آنکھوں میں آپ کے لئے کیسے کیسے خواب سجا رکھے ہیں؟ چشم تصور سے اُنھوں نے آپ کو کن کن عہدوں پر براجمان دیکھا ہے؟ بشمول والدین، کتنے لوگوں کی اُمیدیں اور اُمنگیں آپ سے وابستہ ہیں؟  پیچھے کتنے لوگوں کا پیٹ کٹتا ہے اور کتنے لوگوں کے ارمانوں کا خون ہوتا ہے تو آپ کی تعلیمی گاڑی کو ایندھن مل جاتا ہے؟ ماں کی ممتا شام و سحر آپ کے ہجر و فراق میں کیسے چھلنی ہو رہی ہے؟  باپ کے ناتواں کندھوں پر کتنا بھاری بھرکم بوجھ پڑ رہا ہے؟  بہن بھائیوں کی رگوں میں آپ کیسے لہو بن کر دوڑ رہے ہیں؟  اور وہ پیکر شرم و حیا،  آپ کی شریک حیات جو زبان سے تو کچھ کہہ نہیں پاتی، مگر اس کا پل پل آپ کی یاد میں دھڑکتا ، پھڑکتا کبوتری جگر؟

وطن عزیز کے گوشے گوشے میں بغرض تعلیم بکھرے پڑے میرے جانے انجانے سینکڑوں ہزاروں گلگت بلتستان اور کوہستان کے طالب علمو! آپ کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک گھڑی،  ایک ایک ساعت اور ایک ایک پل بہت زیادہ انمول ہے۔ وقت آپ کے پاس امانت ہے اس کو بہترین مصرف میں خرچ کرنا آپ کی اولین ذمہ داری ہے۔ طالب علم کی زندگی کٹھن ہوتی ہے۔ طرح طرح کے حالات سے طالب علم کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ تونگری حصول علم میں اکثر رکاوٹ بنی ہے۔ ایسے بیشمار طالب علم گزرے ہیں جنہوں نے پیسے کی ریل پیل اور فراوانی میں کھو کر اپنا نصب العین کھو دیا ہے۔ دور طالب علمی میں ضرورت سے زائد رقم طالب علم کو لایعنی مشاغل میں دھکیل سکتی ہے اور یوں اس کا مقصد فوت ہو سکتا ہے۔ علم افلاس مانگتا ہے،  طلب،  تڑپ اور جستجو مانگتا ہے۔ یہ چیزیں تب ممکن ہیں جب افلاس کا سایہ منڈلانے لگے۔ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ حسب ضرورت رقم کا بندوبست کریں۔ ضرورت سے زائد رقم بچے کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ یہ میرا مشاہدہ اور میرا تجربہ ہے۔ میں قریب سے دیکھ چکا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ کس نے کس حساب سے دور طالب علمی گزارا اور آج کہاں کس عہدے پر براجمان ہے؟ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ہر شب دیجور کے بعد ایک روشن سحر اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔

میرا کالم پڑھیں اور شب کو بستر استراحت پر جب دراز ہونے لگیں تو آنکھیں بند کر کے سوچیں،  میرے آپ سے پوچھے گئے سوالات بامعنی ہیں یا مہمل؟ اگر کسی سوال میں سُقم دکھائی دے تو مجھے کوسیں اور اگر درست معلوم ہوں عمل پیرا ہونے کی تگ و تاز میں لگ جائیں ۔ مٹھی بھر طالب علم ایسے ہوں گے جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہوں گے ورنہ اکثر غربت و افلاس کی بےرحم چکی میں پسے ہوئے ہیں ۔ چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں کہ ماہ بہ ماہ آپ کو پیسہ بھیجنے کے لئے پدر بزرگوار کو کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ کن کن مراحل سے گزر کر آپ کا خرچ نکل آتا ہے؟  پیسہ پیڑوں پر پھلتا ہے نہ زمین میں اُگتا ہے۔ ایک بےروزگار غریب شخص خون پسینہ بہاتا ہے،  کمر میں دراڑیں،  ہاتھوں میں چھالے اور پاؤں میں آبلے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر تھوڑا بہت پیسہ جوڑ پاتا ہے۔ میں ایسے کئی والدین سے واقف ہوں جو خود انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے شب و روز کاٹ رہے ہیں اور اپنے بچوں کو بروقت پیسہ بھیجنے میں دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔

سوچیں،  آپ گھر بار،  ماں باپ،  بہن بھائی،  عزیز و اقارب اور یار دوستوں سے میلوں دور اجنبی شہر میں انجان لوگوں کے بیچ کیوں ہیں ؟ یہ ہجر و فراق،  یہ جدائی یہ دوری آخر کیوں؟ وہ کون سی شے ہے جس کی خاطر آپ وہاں ہیں؟  آپ صرف اور صرف حصول علم کی خاطر یہ صعوبتیں اُٹھا رہے ہیں۔ آپ کی زندگی کا اولین مقصد حصول علم ہے۔ اس خواب کی تکمیل ہے جو آپ کے والدین نے آپ کے لئے دیکھ رکھا ہے۔ کھیلوں کے مقابلے،  ثقافتی شوز،  موبائل کا کثرت استعمال اور سیاسی و سماجی تنظیموں میں شمولیت تعلیمی سرگرمیوں کے لئے زہرہلاہل کا کام دے جاتی ہے۔ کبھی کبھار اس طرح کی غیرنصابی سرگرمیوں میں شرکت کی جا سکتی ہے لیکن جس تسلسل سے یہ چیزیں طلبہ میں فروغ پا رہی ہیں وہ باعث تشویش ہیں۔ خصوصاً انٹرمیڈیٹ لیول تک کے بچوں کے لئے تو یہ سرگرمیاں ہلاکت خیز ہیں۔ ان کے کچے کچے دماغوں میں  زہر اُنڈیلنے کے مترادف ہیں۔ ان چیزوں سے حتی الوسع گریز کرنا چاہیے۔ ایسی کسی محفل کا حصہ بننے والے طالب علم کو واپس اپنے ڈگر پر آنے کے لئے کم از کم ہفتہ درکار ہوتا ہے جس کا متحمل ایک طالب علم نہیں ہو سکتا۔

آپ نے کل ڈھول باجے نہیں اس ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی ہے۔ سیاسی و سماجی تنظیموں کے جھنڈے نہیں لہرانے اور نہ ہی وال چاکنگ کرنی۔ آپ نے کچھ بننا ہے ۔ اور ایسا صرف اور صرف محنت اور لگن سے ممکن ہے۔ اپنے بوڑھے والدین کے چہروں پر مسرتوں کے پھول دیکھیں، جب وہ جذبات سے لبریز آواز میں سینہ تان کر،  سر اُٹھا کر کہہ سکیں گے کہ ہمارا لخت جگر فلاں محکمے میں افسر لگ گیا ہے۔ وہ منظر کتنا دلربا ہوگا جب بہن بھائی،  یار دوست حتی کہ اساتذہ کرام آپ کے توسط سے اپنا تعارف کرانے میں فخر محسوس کریں گے۔ اور اگر آپ شتر بےمہار بن گئے تو یاد رکھیں کل یہ لوگ آپ کا نام لینا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ ایسا تب ممکن ہے جب آپ لمحاتی رنگ و رعنائیوں سے اپنا دامن بچا پائیں گے یا پھر ان لمحاتی رعنائیوں میں کھو کر اپنا حقیقی مقصد فراموش کر دیں گے۔

آپ کا مستقبل خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ تابناک بنائیں یا تاریک،  یہ آپ پر منحصر ہے۔ آپ دستیاب وقت اور موقع سے کتنا فائدہ اُٹھاتے ہیں اس کا دارومدار آپ پر ہے۔ وقت کی قدر کرنا سیکھیں،  جس نے وقت کو ٹھکرادیا درحقیقت وقت نے اس کو ٹھکرادیا۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور نہ ہی وقت کو قید کیا جا سکتا ہے۔ وقت ہوا کا جھونکا ہے یا ریت کا ذرّہ۔ ہوا کے جھونکے کو کوئی مٹھی میں بند کر سکا ہے نہ ریت کے ذرّے کو۔ وقت سے فائدہ آپ اُسی وقت اُٹھا سکتے ہیں جس وقت “وقت” آپ کے پاس ہے۔ ایک بار گزر گیا تو گزر گیا،  پھر واپس کوئی نہیں لاسکتا ۔ آج کا کام کل پر مت چھوڑیں،  کہا جاتا ہے لفظ “کل” داناؤں” کی ڈائری میں نہیں ملتا ہاں البتہ احمقوں کی ڈائری میں یہ لفظ بکثرت پایا جاتا ہے۔ جس نے وقت کی قدر کی،  نام کمایا اور جس نے ناقدری کی،  گمنام ہوا۔ تاریخ ایسے لوگوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اللہ آپ کا نگہبان ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں